اس بدقسمت ملک کےبھاگ تیسری بارجاگےکہ کسی دوسرےملک نےپاکستان میں انوسٹمنٹ کرنےکی کوشش کی اس بار چین نےسی پیک کےزریعے ہمارےملک کو دھشتگردی سےبزنس کی طرف لانےکی کوشش کی مگر افسوس کہ تیسری بار بھی یہ ملک ابھاگ رہا کہ ہم اس ترقی سے محروم ہو گئے-
ایک قوت کےکہنےپر ایک جھوٹا نظریہ تخیلق کیاگیا کہ سی پیک ایک نئی چائنیز ایسٹ انڈیا کمپنی ہےجو اس ملک پر قبضہ کر لےگی نواز شریف نےننھا سا پودا لگا کربہت کم وقت میں اس منصوبےپرعمل پیرا ہوا جتنی تیزی کےساتھ اس منصوبہ کاانفرا سٹرکچر2سے3سالوں میں تقریباً پچاس فیصد سےاوپر مکمل ہو-ا
وہ حیرت انگیز تھا، کیونکہ جس ملک میں ایک چھوٹی سی سڑک کو بنانے میں سالوں لگ جایں، اس میں اتنی کم مدت میں پچاس فیصد سے اوپر مکمل ہونے میں مسلم لیگ کی حکومت کا ہی کارنامہ تھا۔ جس مہینے میں چین کے وزیراعظم نے ا کر اس منصوبے پر دستخط کرنے تھے، ٹھیک اسی مہینے اس ملک کے نام نہاد ہمدرد نے ا کر اسلام اباد پر قبضہ کر لیا۔
چین کے سفیر اور چین کی حکومت کی زاتی درخواست کے باوجود ان صاحب نے اسلام اباد پر سے قبضہ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ دوسری بار جب چین کے کنٹینرز کی پہلی ٹیسٹ شپمنٹ آنی تھی، تو ان صاحب نے دوبارہ سے تمام سڑکیں بند کر کے بیٹھ گۓ۔
پانچ سال تک مسلسل یہ پروپوگنڈہ کیے رکھا کہ سی پیک ملک دشمن منصوبہ ہے اور نوز شریف نے ملک چین کے ہاتھوں بیچ دیا۔ ایک جعلی نظریہ تخلیق کیا گیا کہ سی پیک چین کی ڈاریکٹ انویسٹمنٹ نہیں ہے بلکہ یہ ایک قرض ہے جو پاکستان نہیں چکا پاے گا، نتیجے میں چین اس ملک پر قبضہ کر لے گ
یہ کہا گیا کہ یہ قرض 8%کے سود پر لیاگیا ہےجو کہ بلند ترین سطح ہے۔ جب کہ اصل صورت حال یہ تھی کہ سی پیک46 بلین ڈالر کی انوسٹمنٹ تھی جو کہ بعد میں 56بلین ڈالر ہو گی اسمیں سےبڑا حصہ34 بلین ڈالر انرجی سیکٹر کےلیےتھی اسمیں حکومت پاکستان نےایک روپیہ کی انوسٹمنٹ یا قرضہ نہیں لیناتھا
اس عرصے میں تھر کول کا پروجکٹ جو کہ ایک مقامی کمپنی انگرو کے ساتھ شراکت میں سندھ حکومت نے دو ماہ پہلے مکمل کیا ہے۔ ریلوے کی upgradation کے لیے چھ بلین کے لون کی منظوری ہوئ مگر بدقسمتی سے یہ لون ضائع چلا گیا۔ اور کبھی بھی استعمال میں نہ لایا گیا۔ یہ ریلوے کی ترقی اور لون سیاسی صورت حال کی وجہ سےضائع چلا گیا تین بلین ڈالر کا لاہور کراچی موٹر وے میں ملتان -سکھر سیکشن 390 کلو میٹرکےلیےلیا گیا جو کہ اگست ۱۹ میں مکمل ہو گا
گوادر پورٹ کی ڈیویلپمنٹ کےلیے تین بلین ڈالر اور نواز شریف کے جانے سے پہلے دس بلین ڈالرکراچی ماس ٹرانسپورٹ جو کہ جولاہی ۱۹ میں مکمل ہو گی اور کے پی میں چھوٹےڈیم بنانےکےلیے لیا اس کے بعد اج تک چین نے ایک پیسہ کی انوسٹمنٹ نہیں کی اور نہ کرنے کا ارادہ ہے۔ رزاق داود صاحب نے حکومت میں اتے ہی یہ اعلان کیا کہ چین کے ساتھ سارے اگریمنٹس دنیا کے لیے اوپن کریں گے اور ان کو ریوائز کیاجاے
بلکہ وہ اس حد تک گے کہ سی پیک کو کچھ سالوں تک فریز کیا جاے گا۔ کچھ دن پہلے کی خبر ہے کہ رزاق صاحب نے چین کو یہ افر دی ہے کہ پاکستان میں جو بھی انڈسٹری لگانی ہے وہ چین مکمل ملکیت کے طور پر بھی لگا سکتا ہے، جبکہ اس سے پہلے نواز شریف کی حکومت نے چین پر پابندی عائد کی تھی
کہ وہ پاکستانی بزنس مین کی شراکت داری سےہی پاکستان میں انڈسٹری لگاسکتےتھےاور چین نےاس پر امادگی بھی ظاہر کردی تھی اسی طرح اسد عمر نے حکومت میں اتے ہی اس پروجکٹ کو چائینیز نیو کولونیزم کے نام سے پکارا۔اور کہا کہ یہ پروجکٹ پاکستان کے لیے خطرہ ہے۔اس سٹیٹمنٹ سے جو نقصان ہوا
اس کا مداو ہے کوئ؟ اب تازہ صورت حال سی پیک کی یہ ہے کہ یہ روٹ صرف اور صرف افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی طرح استعمال ہو گا۔ چین کا ٹرک گوادر سے اےگااور جاے گا جس سے صرف ہمیں محصول ملے گا اور بس۔ چین اب کسی اکنامک زون یا فیکٹری یااندسٹری لگانے کے موڈ میں نہیں ہے۔
کیونکہ جس ملک میں ساسی استحکام نہ ہو اور جس ملک کے وزیر اعظم کو انویسٹمنٹ اور قرضہ کے درمیان کے فرق کی سمجھ نہ ہو اس ملک پر پیسہ لگانا بے وقوفی ہے۔
آخر میں اتنا پوچھنا ہےکہ ہم عوام کہاں جایں؟ کہ اس ملک پر دوا کام کرتی نہ دعا
3 replies on “سی پیک اور پاکستان کی بدقسمتی”
Wonderful Column.
بلکل ایسا ھی ھے۔
مگر ان نالائقوں کو کون سمجھاۓ۔۔
جو ہمارے ملک کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں انہی کو اپنا مائی باپ سمجھ بیٹھے ہیں۔
اور نالائق اڑیل گدھوں کی طرح اس پہ اٹل بھی ہیں۔۔۔
Fantastic article