ضیاالحق کا بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنا

bhutto zia 2020

انچ جولائی کو ایک فوجی آمر نے ایک جمہوری آمر کا تختہ الٹا ۔اس جمہوری آمر کا جس نے بلوچ قیادت کو جیل میں رکھا ۔ جو سیاسی مخالفت برداشت نہیں کرتا تھا ۔ جس نے پاکستان کو ایک ایسا آئین دیا جس کی تعریف انصار عباسی جیسے لوگ آج بھی کرتے ہیں ۔ وہ کبھی بھی جمہوری نہیں تھا

سوال یہ ہے کہ آج کے دن اس واقعہ پر بھٹو کو حرف تنقید بنانے کا مقصد کیا ہے؟ – ضیاالحق نے جو پاکستان کے ساتھ کیا اس کی بنیاد بھٹو نے فراہم کی تھی ۔ آئین پڑھ لیں

ایک فوجی آمر نے ایک جمہوری آمر کا تختہ الٹا. یعنی دونوں ایک طرح کے لوگ تھے لہذا ہمیں اس واقعے کو اہمیت دینے کی ضرورت نہیں؟ – قذافی ، صدام حسین ، بھٹو ، سبھی ایک کیٹگری کے مالک تھے ،
لیڈرشپ کی خصوصیات تھیں ، فیصلےکی ظاقت بھی ،لیکن واقعی وہ جمہوری نہیں بلک اسٹالن طرزکے ڈکٹیٹر

ہیں جناب ایسا نہیں ہے پی پی کی حکومت آئینی اور قانونی حکومت تھی، ضیاالحق کا مارشل لاء غیر آئینی، غیر قانونی اور بلاجواز تھا.

بھٹو نے (آپ نے لفظ استعمال کیا ہے جمہوری آمر کا) اگر تمام بلوچ قیادت کو جیل میں رکھا اور سیاسی مخالفت برداشت نہیں کی، تو کیا ضیاالحق کا مارشل لاء جائز ہو گیا؟

ھٹو نے ایسا آئین دیا جس کی تعریف انصار عباسی جیسے لوگ بھی کرتے ہیں. تو عرض یہ ہے کہ اگر انصار عباسی جیسے لوگ اپنے مطلب کی چند شقیں اپنی منافقت کے لئے استعمال کرتے ہیں (اور اگر وہ غلط بھی ہوں) تو کیا ضیاالحق کو یہ حق مل گیا کہ وہ پورا آئین پھاڑ کے کچرے میں پھینک دے؟

ان لوگوں کا کیا جائے جو ہمیں مارشل لاء کی حمایت اور سویلین حکومتوں کی توڑ پھوڑ اور برطرفی کو اسی طرح کے جوازات پیش کرکے اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات کو اخلاقی طور پر جائز قرار دیتے ہیں. جیسا کہ بھٹو جمہوری آمر تھا، بیظیر کرپٹ تھی، زرداری اور نواز شریف چور ڈاکو ہیں. جو بھی ہو مارشل لا کا جواز نہیں تھا

سطائیت کو ختم کرنے کا راستہ خود فراہم کیا تھا بھٹو نے ضیاالحق خود بخود نہیں تھا آیا ڈھانچہ ہی ایسا تشکیل دے دیا گیا تھا کہ ضیا کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو آتا – ویسے پختون قیادت بھی ساری جیل ہی میں تھی۔ – اسی طرح 12 اکتوبر 1999 کو فوجی آمر نے سرکاری جمہوری آمر کو برترف کیا

انچ جولائی ۱۹۷۷کی بنیاد بھٹو صاحب کی حلف برداری بطور صدر والے دن ہی رکھ دی گئی تھی اور مہر لگی جنرل گل حسن کے استعفے والے دن۔
آرمی اتنی کمزور نہیں تھی جتنا ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ کو عوام نےسمجھا تھا۔ سرنڈر پلان کے مطابق ہوا اور ۱۹۷۴ کی اینٹی احمدیہ تحریک بھی۔

ور ۱۹۷۱ کی شکست کو اسلام سے دوری کا نتیجہ اور شراب و شباب کا شاخسانہ قرار دینا۔ عرب کی اسرائیل کے خلاف ہار اور پاک آرمی کا پورے اسلامی بلاک کو لیڈ اور کنٹرول کرنا جنرلز کی خواہش اور رکاوٹ کو دور کر دیا۔ شائید صرف بھٹو فیملی کا ۱۹۷۷ میں قتل عام نا ہونا پلان سے ہٹ کر تھا۔

سوشلزم ہماری معیشت ہے، طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں، روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ، ایک سال میں سب بدل دیا، اسلامی سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سر چشمہ اللہ تعالی کی ذات ٹہرا، چن چن کے سب سوشلسٹ اندر کیئے، انجام کار پھانسی کی سزا کوئی نہ بچا سکا

ی ہے کھرا سچ – یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں اُسی طرح چُھپے ہوے ہیں جس طرح اور بہت سے سچ ۔

Please follow and like us:

Be the first to comment on "ضیاالحق کا بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنا"

Leave a comment

Your email address will not be published.


*


RSS
Follow by Email
WhatsApp