اسے فکری بد دیانتی کے علاوہ کیا کہاجائے؟
ن لیگ کے دور میں ہر روز 7بجے سے رات 11بجے تک ہر چینل پر ن لیگ اور نوازشریف کی کردارکشی ہوتی رہی، کوئی ایک چینل بند نہیں ہوا، کسی صحافی پر بین نہیں لگا.
پانامہ کیس پر 500 سے زیادہ پروگرام ہوئے اورہر پروگرام کا تجزیہ نگار بذات خود جج ہوتاتھا
پیپلز پارٹی کا دور بہت بہتر تھا۔ ن لیگ کی حکومت میں اس پر تنقید چھپنا بہت مشکل کام تھا، اس نے میڈیا کو “مینیج” کیا ہوا تھا۔ اس کٹھ پتلی نے تو میڈیا کا گلہ ہی دبا دیا۔شکر ہے سوشل میڈیا اور آن لائن کی سہولت آ گئی اگرچہ اس پر بھی ڈریکونین قوانین اور ٹرال آرمی فارمز کا مسئلہ رہتا ہے۔
امید کرتے ہیں کہ اب اس فکری کیڑے کو سکون ہو گا جس کو نون دور مشکل لگتا تھا اب جو آزادی ملی ہے یاد رکھیئے کہ اس میں آپ کے قلم کی سیاہی بھی شامل ہے اور اپنے پیر و مرشدین کو دیکھ لے معافیاں مانگتے پھر رہے ہیں اب
ھاھاھا ن لیگ کی دور میں تین سو بندوں کا ایک سو چھبیس دن کا دھرنا روز ٹی وی پر چلتا تھا
کسی ایک تنقیدی اینکر کا پروگرام بند ہوا ہو تو بتا دیں؟؟ – جب دیکھو ہر چینل ہر حکومت کو ہر کام میں تنقید کا سامنا تھا
ہارون الرشید حسن نثار ایاز امیر اور ان جیسوں کی لمبی فہرست ہے جو جملہ معترضہ کے طور پر ہر ناکردنی ن لیگ کے کھاتے میں ڈال کر موجودہ نااہل حکمرانوں کے اقتدار میں لانے کا باعث بنے تھے بہت سوں نے معافی بھی مانگ لی ہے آپ سے بھی گزارش ہے کہ مفروضوں کو حقائق بنا کر پیش نہ کریں
ن لیگ کے دور میں مسلسل 5 سال ایک آدھ چینل کو چھوڑ کر باقی سب نے 23 گھنٹے ن لیگ کی کردار کشی کی. کوئی ایک چینل بھی بند ہوا؟ کتنے صحافیوں کی نوکریاں گئیں؟ چینلز پر پتھراؤ بھی پی ٹی آئی کی طرف سے کیا گیا.
حضور سچ ہے انسان کی فکر میں کہیں نہ کہیں تعصب دبا رہتا ہے – جناب آپ PMLnپانچ سال کا ریکارڈ نکال کے دیکھیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ حکومت کے خلاف کتنے کالم لکھے گئے یا کتنے پروگرام کیا گیے، اور کتنے کالم یا پروگرام سنسر ہوئے اور کتنے ٹی وی اینکرز کی جاب ختم ہوئی، جب ڈنڈا آتا ہے تو آپ لوگوں سے بولا بھی نہیں جاتا، وڈے فلاسفر
ن لیگ کے دور میں میڈیا بہت آزاد تھا اور کئی چینل اس رعایت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت پر جھوٹی تنقید میں مصروف رہتے تھے – یوتھیا سچ میں بھی جھوٹ کی غلاظت کی ملاوٹ کرکے بولے گا، ان منافقوں کا ایمان ہی ن لیگ کے خلاف بہتان بازی اور نیازی کے قصیدے پڑھنا ہے
Be the first to comment on "فکری بد دیانتی"