ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے
انجامِ گُلستاں کیا ہوگا
میں کل مذاق میں کسی سے کہہ رہا تھا کہ بنگلہ دیش کو بھی نئے پاکستانی نقشے میں شامل کر لیتے – آج حسن نثار نے پوری سنجیدگی سے یہ بات کہہ دی – کل جو نقشہ پیش کیا گیا ہے اسے عام زبان میں “”نقشے بازی”” اور لاھوری زبان میں “”رنگ بازی”” کہتے ہیں
1960کی دہائی میں لاہور کے رنگ محل مشن ہائی سکول میں غالباََ تیسری جماعت سے جغرافیہ نامی مضمون سے آگاہی کا آغاز ہوا تھا۔ان دنوں پاکستان کا جو نقشہ میرے ذہن میں بٹھایا گیا اس میں تمام تر جموںوکشمیر ہمارے وطن کا حصہ ہی دکھائے گئے تھے۔
’نیا نقشہ‘کشمیر پر ہمارے’حق ملکیت‘کااعادہ نہیں ہے۔جوناگڑھ اورسرکریک کےتذکرے نےاسکا Strategicکینوس وسیع تربنادیا ہے۔سوشل میڈیا پرحاوی پھکڑپن اور یوٹیوب پر چھائے ’ماہرینِ دفاعی وخارجہ امور‘کےیاوہ گوئی پر مبنی خطبات کےذریعےاس کینوس کی گہرائی اور مضمرات کا ہرگز اندازہ نہیں ہوپائے گا
ہمارے بچپن کے نقشے کو لوٹادینے پر حکومت کا شکریہ. 66-1965تاشقند مذاکرات کے نتیجے میں نقشے میں تبدیلی والے کون تھے، ایک نیا کٹا نہ کہیں کھل جائے؟
اگر نقشوں سے ریاستیں بنتی تو اس وقت میری زاتی دس بارہ ریاستیں ہوتی. – دنیا آجکل دورِ مزاحیہ سے گزر رہی ہے۔ – دیکھ لیں ہمارا مذاق ان کی سنجیدہ گفتگو کا حصہ ہے, یہیں سے ان کی قابلیت کا اندازہ لگا لیں.
ایک بندہ ہاتھ اسطرح منہ کی جانب بڑھا رہا تھا جیسے وہ کچھ کھا رہا ہے جب دوسرے بندے نے پوچھا کہ ہاتھ میں کچھ نہیں تو جواب دیا خیالوں میں چنہ کھا رہا ہوں تو اس نے کہا پھر کمبخت بادام کھا لو۔ اگر پوری دنیا کو پاکستان کے نقشے میں ڈال کر اپنے خیالوں میں اسلامی ریاست قائم کریں
خان صاحب اگر نقشہ بدلنے سے بھی کچھ نہیں ہورہا تو ایک دفعہ نشہ بدل کر بھی دیکھ لیں – اگر نقشے اور طبلے سے بھی انڈیا پر اثر نہیں ہو رہا تو ایک بار وزیر دفاع کو سامنے کر کے دیکھ لو ہو سکتا ہے اس کی دہشت سے گھبرا جائے