اکتوبر 1999 سے اکتوبر 2020 آگیا آپ نے کیا پٹ لیا ؟ ٹوئیٹری شعور میں آپ دنیا جہاں کے ماہرین کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں مگر آن گراؤنڈ صورتحال یہ ہے جو غریب 1999 میں جہاں کھڑا تھا آج بھی وہیں کھڑا ہے۔
کیا آپ بتانا پسند کریں گے آج لاہور کراچی اسلام آباد خیبر پختونخواہ کوئٹہ میں عام عوام اپنے روزگار کی فکر میں خوار ہو رہی تھی یا چوکوں میں مارشل لاء کے خلاف جلسے جلوس نکال رہی تھی
کسی لیڈر نے عوام میں شعور پیدا کرنے کی کوشش ہی نہیں کی صرف تماش بین پیدا کئیے اپنے جلسے جلسوں کی رونق بڑھانے کے لیے ان کو استعمال کیا اور پھر پھینک کر آگے بڑھ گے
کوئی صاحب علم راہنمائی کرنا پسند کرے گا جمہورئ حکومتوں میں چاہے وہ میاں صاحب کی ہو یا زرداری صاحب کی اپنے ادوار میں ان قوتوں کا راستہ روکنے کے لیے ایک میز پر کیوں نہیں بیٹھے اور عوام کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا
اگر زرداری گورنمنٹ کو میاں صاحب کی فرینڈلی اپوزیشن کا سامنا تھا تو انہوں نے اس قصے کو ہمیشہ کے لیے پاک کیوں نہیں کیا ؟ اور اگر میاں صاحب دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس کو ختم نہیں کر سکے تو باتیں کرنا چھوڑ دیں
عوام کے مزاج کو بدلیں عوام میں آئیں ان کو سکھائیں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جانی و مالی قرُبانی دینی پڑتی ہے ان میں انقلاب کا شعور اُجاگر کریں ان کو اپنا سمجھیں ان کو استعمال مت کریں آپ کی بہت مہربانی ہوگی
سارا دن لاہور میں گھومتا رہا ہوں ہر گلی محلے چوک میں بائیک کھڑی کر کہیں سے بوتل پئی کہیں سے نان چنے کھاۓ کہیں سے پٹھورے کہیں سے قتلمہ کہیں سے چاۓ کہیں سے کہیں سے کافی پئی اور قسم سے حلفیہ کہتا ہوں کسی ایک بندے نے نہیں کہا آج فلاں تاریخ اۓ 21 سال پہلے مارشل لاء لگا سی
جدھر بھی بات ہوئی خرچے ود گئے نے گُذارا بہت مُشکل اۓ ہن اینج ہو گیا تے ہن اینج ہو گیا اسئ کدر جائیے ساڈی کوئی سُندا ائئ نہیں میں کہیا تسی اینج کرو مر جاؤ کیونکہ نہ تواڈے آسطے کسی نے آواز چُکنی اۓ تے نہ تسی موت دے خوف توں گھروں باہر نکلنا اۓ لہذا سوکھا حل اۓ مر ہی جاؤ
آج کل سب جمہوری چمپئین پھر میدان میں ہیں بس باتیں سُنی جاؤ ان کی اور یہ ایک بار پھر عوام کو بیچ دیں گے ان کے ارمانوں کا خون کریں گے پھر اُس خون سے رنگولئ کھیلیں گے اور دو چار لالئ پاپ دے کر ان پر احسان عظیم کر دیں گے
حالات بدلنے کے لئے قُربانی دینا پڑتی ہے جس تماش بین ہجوم کا مزاج چاند رات پر بکرا لا کر صبح قُربانی کر دینا ہوا انہیں قُربانی کے مفہوم کا ٹکا بھی نہیں پتا بس ایک ہی کام ہے صبح سے شام تک آؤ باتیں چودیں اور پھر جانو مانو کی گود میں سر رکھ کر سوجائیں
انقلاب خونی ہوتا ہے اور جنگیں قومیں لڑتی ہیں تاریخ قوموں کی لکھی جاتی ہے تماش بین ہجوموں کی نہیں تاریخ لکھنے اور تاریخ بنانے میں بہت فرق ہے یہ آپ پر منحصر ہے آپ اپنی تاریخ خود للھیں گے یا مورخ آپ کو پیش کرے تاریخ کے پنوں میں
آپ کا میری باتوں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ آپ کی آنکھوں پر چاپلوسی کی پٹی چڑھی ہوئی ہے سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کہ جب عوام میں جائیں گے ان کی سُنیں گے ان کی کہانیوں کو محسوس کریں گے تو یہ پٹی کھل جاۓ گی ان شاء اللّہ
ابھی آپ کے پاس دانے ہیں لہذا آپ سیانے ہیں !
بہرحال سو کالڈ لیڈروں سے گُذارش ہے عوام کو تماش بینی کے لیے استعمال مت کریں ان کے ساتھ بھوک ہڑتال کریں اور ان کے ساتھ بیٹھیں ان کے حالات و واقعات کو بہتر کرنے اور کروانے کی کوشش کریں غریب مر گیا ہے اسے دلاسوں کی نہیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے
ویسے یہ عوام بھی بہت بے حس اور موت کے کنویں میں ناچتا کھسرا دیکھنے کی شوقین ہے روٹی گھر میں ہو یا نہ ہو میلا دیکھنے ضرور جائیں گے اس مزاج کو بدلنے کی ان کو بھی بہت ضرورت ہے اور یہ مزاج ایجوکیشن سے بدلا جا سکتا ہے جس پر کسی کئ کوئی توجہ نہیں ہے
لیڈروں کا کام ہوتا عوام کو ایجوکیٹ کریں انہیں پلس اور منفی رُجحانات سے روشناس کروائیں ان کی زندگیوں میں کیسے بہتری آۓ گی اُس پر عملی اقدامات کر کے انہیں سکھائیں مگر یہاں وہی حال ہے جیسی عوام ویسے حکمران
جزاک اللّہ خیراً
Be the first to comment on "آپ نے کیا پٹ لیا ؟"