استاد دامن

استاد دامن

لاہور کے عوامی شاعروں کا زکر ہو اور استاد دامن کا زکر نہ ہو ایسا ممکن نہیں۔ وہ ان سب کے استاد تھے۔

لیکن پہلے سمجھیئے عوامی شاعر ہوتا کون ہے۔وہ چاہے کسی بھی زبان سے متعلق ہو، کسی بھی علاقے سے تعلق ہو وہ عام عوام کا شاعر ہوتا ہے خواص کا نہیں ۔

زبان و ادب کا شاعر نہیں ۔ پھر اسکا دکھ غمِ جاناں نہیں ہوتا غمِ روزگار کے مارے لوگ ہوتے ہیں، سڑکوں پر چلتے پھرتے ریٹرھیاں لگاتے، ملوں میں مزدوریاں کرتے عوام ہوتے ہیں۔ وہ خود بھی اُنہیں میں سے ایک ہوتا ہے اُنہیں کی زبان میں بات کرتا ہے بس قدرتی طور پر شاعر ہوتا ہے

نہ کہ علم کے بِنا پر شعر کہتا ہے اس لئے بہت سے عوامی شاعر واجبی تعلیم یافتہ یا سرے سے ہی غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں

لاہور میں پیدا ہوئے اور خاندانی طور پر درزی پیشے سے منسلک تھے۔ شعر گوئی کی ابتدا بڑے بھائی کی وفات پرمرثیوں سے کی لیکن باقاعدہ طور پر شاعری کا آغاز میٹرک کے بعد کیا

سیاسی جلسوں میں بھی نظمیں پڑھتے۔ وہ سید عطا اللہ شاہ بخاری ،میاں افتخار الدین اور مزدوروں کے جلسوں کی رونق ہوتے تھے۔لاہور کے ایک جلسے میں جس کی صدارت جواہر لال نہرو کر رہے تھے، دامن نے نظم پڑھی جو نہرو نے بہت پسند کی اور 100 روپے انعام دیا۔

قیامِ پاکستان کے فسادات کے دوران اپنے دکان اور خاندان دونوں گنوا دیئے تو اندرون ٹیکسلائی گیٹ میں ایک حجرے میں مقیم ہو گئے۔ قیاس ہے کہ ہیرا منڈی کے آغاز میں چیت رام روڑ پر، ایک مسجدکے زیرِ سایہ جس کوٹھڑی میں استاد دامن مقیم تھے گئے زمانوں میں انکے مرشد شاہ حسین بھی رہتے تھے۔

اس کا تاریخی طور پر کوئی حوالہ موجود نہیں۔ محض ایک داستان طرازی لگتی ہے۔

کھانا کمال بناتے تھے۔ بقول یوسف کامران جیسا گوشت وہ بُھونتے تھے، جیسے کوفتے وہ بناتے تھے وہ اپنی مثال آپ ہوتے تھے کہ انہیں وسکی کا تڑکا لگایا گیا ہوتا تھا۔

استاد نے دوبارہ شادی نہیں کی.

اس لئے حجرے میں استاد دامن کے علاوہ صرف کتابیں ہوا کرتی تھیں۔ واجبی سی تعلیم کے باوجود کثیرالمطالعہ تھے۔ عربی، انگریزی،روسی، سنسکرت اردو پر “عبور” رکھتے تھے مگر اظہارِ خیال صرف پنجابی میں کیا۔ بقول فیض احمد فیض” میں پنجابی میں صرف اس لئے شاعری نہیں کرتا کہ پنجابی میں

شاہ حسین، وارث شاہ اور بلھے شاہ کے بعد استاد دامن جیسے شاعر موجود ہیں “

آزادی کے کچھہ عرصہ بعد انہوں نے ہندو پاک دلی میں منعقد مشاعرے میں یہ فی البدیہہ نظم پڑھی

آزادیاں ہتھوں مجبور یارو
ہوئے تسی وی او ‘ہوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دس دی اے
روئے تسی وی او، روئے اسیں وی آں

حاضرین بے اختیار رونے لگے۔ مشاعرے میں پنڈت جواہر لعل نہرو (وزیراعظم بھارت )بھی موجود تھے انہوں نے استاد دامن سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مستقل طور پر بھارت میں قیام فرمائیں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ اب میرا وطن پاکستان ہے میں لاہور ہی میں رہوں گا بے شک جیل ہی میں کیوں نہ رہوں

نہ جھکنے والے، نہ بکنے والے شاعر استاد دامن صدارتی انتخاب میں جنرل ایوب خان کے مقابل قائداعظم کی بہن مادرملت محترمہ فاطمہ جناح مادرملت کے ساتھ تھے۔
ایک سازش کے تحت جب حبیب جالب کو گورنر نواب کالا باغ نے اقدام قتل کے جھوٹے مقدمے کے تحت جیل میں ڈال دیا۔ تو موچی گیٹ لاہور کے

لاکھوں کے جلسے میں استاد دامن کہہ رہے تھے
’’ایہہ کی کری جاندا ایں ‘
کدی شملے جاندا ایں کدی مری جاندا ایں‘‘
اسی جرم کی پاداشت میں جیل میں ڈال دیئے گے۔

جب فیض صاحب کا انتقال ہوا تو حبیب جالب ہسپتال میں اپریشن کے ہاتھوں شرکت نہ کر سکے۔ استاد دامن بھی ہسپتال میں بیمار تھے

ہر احتیاط کو بالائے تاک رکھ کر جنازے پر گئے اور شاید روحانی طور پر اپنے دوست کے ساتھ اسی دن بھی رخصت ہو گئے جسمانی طور پر محض ہفتہ دس روز زندہ رہے اور اس دنیا سے منہ موڑ لیا۔
اور مرشد شاہ حسین کے مزار کے ساتھ دفنائے گئے

وفات کے بعد انکے حجرے کو استاد دامن اکیڈمی بنا دیا گیا

اور چاہنے والوں نے مرنے کے بعد کلام ” دامن کے موتی ” کے نام سے شائع کروایا۔

By Ibn-e-Saeed.

Please follow and like us:

Be the first to comment on "استاد دامن"

Leave a comment

Your email address will not be published.


*


RSS
Follow by Email
WhatsApp