دس سالہ حسنین شام سات بجے سے صبح سات بجےتک پوری رات صرف دو سو پچاس روپے کےعوض ٹرک ہوٹل پر ڈیوٹی کرتا ہے اور صبح نو بجےاپنے سکول چلا جاتا ہے جہاں وہ چوتھی جماعت میں پڑھتا ہے
دیکھ کر سوچ رہا ہوں کتنا خوبصورت بچہ ہے اور کتنی مشکل زندگی ملی اس کو
ایسے بہادر بچے گھر کے بڑے ہوتے ہیں
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند۔
حسنین کی زندگی ہمارے لئے قابل رشک بھی ہے اور معاشرے کی بے حسی پر قابل شرم بھی۔ جو معاشرتی اپنے بچوں کو تعلیم ،صحت اور خوراک جیسے بنیادی حقوق دینے سے قاصر ہو اس کی انحطاطی پر سوائے ماتم کے کیا کیا جاسکتا ہے
رزق حلال عین عبادت ہے۔
حلال زندگی مشکل مگر حقیقی زندگی ہے۔
ویسے یہ نام نہاد پڑھے لکھے بیورکریٹس و
دیگر افراد کے منہ پر تماچہ ہے جو حرام ڈکھار رہے ہوتے ہیں۔
اور ملک کی جڑھیں کھوکھکی کررہے ہیں۔
میرا صرف ایک ہی موقف ہے
ان والدین کو جیل میں بند کرنا چاہیے جو اپنے بچوں کو کام پر لگا دیتے ہیں
اگر کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہیں؟
میں نے ایک ویٹر سے بات کی تھی وہ بھی کم و بیش اتنی ہی تنخواہ پہ رات کی شفٹ میں کام کرتا تھا اور رات بارہ بجے تین کلو میٹر پیدل گھر جاتا تھا دل دکھتا ہے کہ ایسے محروم لوگوں کے سامنے ہم ہزاروں کا کھانا آ رڈر کر رہے ہوتے ہیں
لیبر کہ قانون موجود ہیں لیکن جنہوں قانون پہ عمل کروانا ہے وہ محکمہ مکمل طور پہ فیل۔
سوشل سکیورٹی ، لیبر کورٹ وغیرہ سب گھٹیا ترین ادارے ہیں۔
کسی بھی بڑی سے بڑی فیکڑی میں جا کر لیبر کا حال دیکھ لو اور انکے ہیڈ آفس میں پڑی سرٹیفیکیشنز دیکھ سر شرم سے جھک جاتے ہیں
بچے جوکسی ملک کامستقبل،سرمایہ،اثاثہ ہوتے ہیں،جب حالات سے مجبور ہوکرہنسنے کھیلنے کے دنوں میں کام کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں تویقیناً اس معاشرے کیلئے ایک المیہ وجود پارہاہوتاہے۔یہ المیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زخم کی صورت اختیار کرتا اور ناسور بن کرسماج کاچہرہ داغ دار اوربدصورت کر دیتا ہے
کبھی سنا تھا بچے ریاست کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ پر اس ملک میں تو کوئی بھی ذمہ داری نہیں حکومت پر۔
بہت سے ایسے بچے ہیں
فری تعلیم ملنی چاہئے اور مناسب وظفیہ بھی ملنا چاہئے
مگر کرپشن نے تباہی و بربادی کر دی ہے
ایسے بچے ہمارا فخر ہیں اور بحثیت معاشرہ ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے
آپکو کم از کم تنخواہ کے قانون پر عملدرآمد کراتے ہوئے اسکی تنخواہ بڑھوانی چاہیے۔
Be the first to comment on "پاکستان میں ویٹر کی زندگی"