ایک سبق جو ۲۰۰۶ میں مجھے ایک جماعتی دوست نے دیا تھا پاکستان میں کہ”اس ملک میں کبھی بھی دینی معاملات پر بحث نا کرنا کیوںکہ یہاں سب کا علم انکے محلے کی مسجد کے امام تک محدود ہے اور وہ صرف اپنے مسئلک کی بات کرے گا اور جہاں وہ سمجھے گا وہ دلیل نہیں دے پا رہا اسکے پاس اخری ہتھیار
توہین کا ہوتا ہے اور وہ بے دریغ اسکا استعمال کرے گا اور لوگ یے نا پوچھیں گے کیا توہین کی وہ پہلے آپ کو مانجیں گے پھر توہین کی بات سنیں گے” اسکی کہی ہوئ بات بلکل ٹھیک تھی مگر اب حالات یے ہو چکے ہیں کہ اتنا عام کر دیا گیا ہے اور پولیس اور ججز بھی ڈرتے ہیں کہ ہم نا مارے جائیں
پچھلے دنوں ایک مسجد سے منسلک مدرسہ کے اشتہاری فیلکس پر نمایاں حروف میں تحریر تھا :
” ہمارے ہاں قرآن پاک کی == مسلکی == تشریح و تفسیر پڑھائی جاتی ہے۔”
ایسے مدارس سے سیکھے ہوئے (نام نہاد) ‘عالم’ لوگوں کو اسی طرح فساد پر اکسائيں گے۔
ہمارے معاشرے کی ضعیف سوچ نے اج ایک اور انسان کو حادثاتی طور پر غازی پیدا کردیا۔
قران پاک کی ایت ہے کہ
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ۔
اے ایمان والو!اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو انجانے میں کسی قوم کو تکلیف نہ دے بیٹھو پھر اپنے کیئے پر شرمندہ نہ ہونا پڑے۔۔۔۔
بینک مینجر عمران حنیف اعوان کی فیس بک پیج کا بغور جائزہ لینے کے بعد میں تو شرمندہ ہوں اپ خود فیصلہ کرلیجیئے
جو اج کا بینک مینیجر اور گارڈ کا واقعہ پڑھا اور پھر اس گارڈ کی وڈیو اور اسکی خاطر تواضع ہوتی دیکھی اسکے بعد ایک بات کہی جا سکتی ہے پاکستان میں کسی کو کسی بھی جگہ مار دو اور بس پھر یے کہ دو اس نے توہین کی ہے اور مارنے والے کو بغیر کسی پوچھ گچھ کے ہیرو بنا لیا جائے گا
پہلے کافر کافر کے نعرے اور قتل۔اب مسلکی اختلافات کوگستاخی کا نام دے کر۔۔۔
اس خون ناحق کی ذمہ واری ان جاہل مولویوں کے سر جاتی ہے جنہوں نے اپنے مسلکی اختلافات کو توہین رسالت سے جوڑ کر عام لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں ہیں اور گزشتہ عرصے سے یہ مرض تناور درخت بنتا جارہاہے
سب کچھ مولویوں کے سر نہ ڈالا جاے ریاست بھی اتنی ہی زمہ دار ہے۔
جج قانون کے مطابق فیصلہ کرنے سے ڈرتا ہےکہ پھانسی کی سزا دی تو خود کی جان خطرہ میں پڑ سکتی ہے
اہل مذھب نے اسکا سدباب نہ کیا تو ایک دوسرے ہی کے گلے کاٹیں گے.
Be the first to comment on "دینی معاملات پر بحث نا کرنا"