کبھی کبھی میں آپ کی بصارتوں کی نظر پرانی مگر سچی کہانیاں پیش کرتا ہوں۔
جنرل ایوب ملک کے صدر تھے اور نواب آف کالاباغ گورنر پنجاب تھے۔ تب جنرل ایوب کو ملک میں ایک جمہوری حکومت کی فکر ہوئی تو ملک میں غیرجماعتی الیکشن منعقد کروائے گئے۔ جن میں ووٹ کا حق صرف BD ممبرز کو تھا۔
بابائے سیاست انورعزیز چوہدری اس وقت جوان تھے اور امریکہ سے ایل ایل ایم کر کے آئے تھے امریکہ میں بھی کچھ بین الاقوامی فورم پر اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑے تھے۔
ایوب سرکار کےاس الیکشن میں انورعزیز چوہدری صاحب نے ایم پی اے کا الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا اور علاقہ میں چونکہ قبل از پاکستان
عبدالرحیم چوہدری خاندان کی اجارہ داری تھی ان کو یہ نوجوان انورعزیز چوہدری بہت چھبتا تھا جو اکثر ان کی شہنشاہیت میں روڑے اٹکاتا تھا۔ اور اب اس نے عبدالرحیم چوہدری کے سالے عبدالراوف کے خلاف ایم پی اے کے کاغذات جمع کروا دیئے۔
عبدالرحیم چوہدری نے یہ بات اوپر اپنے آقا جنرل ایوب تک
پہنچائی اور یوں انورعزیزچوہدری کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ کاغذات نامزدگی داخل کرواتے ہی ان کے خلاف بہت سے مقدمات رجسٹرڈ ہو گئے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے ووٹر صرف بی ڈی ممبرز تھے۔ ان ووٹرز کو دھمکانے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
انورعزیز چوہدری صاحب کے آگے
جتنی رکاوٹیں ڈالی گئیں ان کے جنون میں اتنا ہی اضافہ ہوتا گیا۔ علاقہ کے لوگ جو چوہدری عبدالرحیم گروپ کے مظالم سے تنگ تھے ان کو انورعزیز چوہدری کی صورت میں “امیدسحر” نظر آئی یہ لوگ رات کے اندھیرے میں چھپ چھپا کر انورعزیز چوہدری سے ملتے اور اپنی حمایت کا یقین دلاتے جب اس بات کی
چویدری عبدالرحیم کو بھی مل رہی تھی۔ اس نے پورا زور لگوا کر انورعزیز چوہدری کو گرفتار کروانے کا بندوبست کر لیا۔ تب پولیس کے پاس ڈالے نہ ہوتے تھانیدار تانگے پر جبکہ سپاہی گھوڑے پر سوار ہو کر گرفتاریوں کے لئے نکلتے تھے۔ جب ایسا سکواڈ انورعزیز چوہدری کو گرفتار کرنے ان کی طرف نکلا
انورعزیز چوہدری نے کہا اس میں کیا ہے میں گرفتاری دے دیتا ہوں اور ان جھوٹے کیسوں کو عدالت میں جھوٹا ثابت کروں گا۔ تب وہاں ان کے ایک چچا نے کہا بیٹا یہ جو لوگ آپ کو ووٹ دینا چاہتے ہیں وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ آپ ان کو ایسی گرفتاریوں اور مظالم سے نجات دلائیں گے اگر آپ ہی گرفتار ہو
گئے تو وہ مایوس ہو جائیں گے اور ان کی امید ٹوٹ جائے گی۔ انورعزیز چوہدری کو یہ بات سمجھنے میں دیر نہ لگی پولیس کا تانگہ اور گھوڑے تب ان کے گھر کے قریب پہنچ چکے تھے۔ انورعزیزچوہدری نے حویلی میں بندھے گھوڑے کو کھولا کاٹھی وغیرہ ڈالنے کا تکلف بھی نہ کیا اور گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ
کر گھوڑے کو گاوں سے نکالا اور اپنے قریبی ریلوے اسٹیشن کی بجائے تیسرے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے “تب شکرگڑھ کا ضلع سیالکوٹ تھا اور شکرگڑھ کوئی پکی سڑک نہ آتی تھی صرف ریلوے ہی سفر کا واحد ذریعہ آمدورفت تھا” اس ریلوے اسٹیشن کے قریب انورعزیز چوہدری ایک جگہ چھپ گئے۔ اور گھوڑے کو آزاد
چھوڑ دیا جس نے لامحالہ گھر پہنچ جانا تھا۔ رات یونہی گذری صبح اذانوں کے وقت پہلی ٹرین آئی تو جب ٹرین آہستہ ہوئی تو انورعزیز چوہدری چلتی ہوئی ٹرین کے انجن میں چڑھ گئے اور ڈرائیور کو مختصر الفاظ میں اپنی کتھا سنائی اور رازداری اور مدد کا کہا ڈرائیور نے کہا فکر ہی نہ کریں۔
راستے میں ہر ریلوے سٹیشن پر پولیس پوری ٹرین کی تلاشی لیتی رہی انجن کی طرف پولیس آتی تو ڈرائیور لاپرواہی سے ان کو دیکھتا اور انجن کی طرف متوجہ ہی نہ ہونے دیتا۔
جب سیالکوٹ ریلوے اسٹیشن کے قریب ٹرین پہنچی تو ڈرائیور نے ٹرین پہلے ہی معمول سے زیادہ آہستہ کر دی یوں انورعزیز چوہدری
چلتی ٹرین سے اتر کر سیالکوٹ میں اہنے ایک دوست وکیل کے گھر پہنچ گئے۔ اور ان کو کہا سب سے پہلے میرے لئے لباس کا بندوبست کرو پھر تمام دوست وکیلوں کو اکٹھا کرو میں نے اپنی عبوری ضمانت کروانی ہے۔
جب وکلاء اکٹھے ہو گئے تو ان کے ساتھ انورعزیز چوہدری سیشن جج سیالکوٹ کے پاس پہنچے
سیشن جج نے جب انورعزیزچوہدری کو سنا تو عجیب فیصلہ دیا۔ وہ فیصلہ کچھ یوں تھا۔
الیکشن کے دو دن بعد تک انورعزیز چوہدری کو آج سے پہلے یا آج کے بعد کے کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔
ضمانت کا پروانہ لینے کے بعد انورعزیز چوہدری لاہور پہنچے اور اپنے ایک دوست کے پاس گئے
دوست نے جب بات سنی تو چوہدری صاحب کو اپنی کار میں لے کر گاڑیوں کے شوروم پر آئے اور ایک جیپ پسند کی اس جیپ کی قیمت 10 ہزار تین سو روپے تھی جیپ کی رقم ادا کرنے کے بعد اس دوست نے جیپ کی چابی انورعزیزچوہدری کو تھماتے ہوئے کہا اگر الیکشن جیت کر آئے تو مجھے ملنا اگر الیکشن ہار گئے تو
مجھے زندگی میں کبھی نہ ملنا۔ اگلے دن انورعزیز چوہدری جیپ پر شکرگڑھ پہنچے اور وہ کمپین جو پہلے گھوڑے اور تانگے پر شروع تھی جیپ پر شروع کی دوسرے روز انورعزیزچوہدری تھانے کے قریب سےگذر رہے تھے تو تھانیدار نے انورعزیز چوہدری کو گھورا اور اپنی مونچھوں کو تاو دیا۔
اب انورعزیز چوہدری
کے پاس الیکشن کے دو دن بعد تک کا ضمانت نامہ تھا۔ ان کے پاس کوئی اوزار تو نہ تھا۔ انہوں نے گاڑی سے بڑا سا پیچ کس نکالا اور لہراتے ہوئے تھانیدار کی طرف لپکے اور کہا کہ آج تمھاری بدمعاشی اور تمھیں ختم کر دینا ہے۔ ساڑھے چھ فٹ کے انورعزیز چوہدری کو اپنی طرف آتا دیکھ کر تھانیدار
ڈر گیا. یاد رہے کہ اس سے بہت پہلے انورعزیز چوہدری انگلینڈ اولمپک میں پاکستان کے لئے پیراکی میں تمغہ بھی جیت چکے تھے اور قومی لیول کے باکسر بھی تھے۔
تھانیدار آگے آگے بھاگنا شروع ہو گیا اور انورعزیز چوہدری اس کے پیچھے ہو لئے اور تھانیدار کو سپاہیوں کی ایک بارک میں جا پکڑا
اور مارا تو نہیں البتہ اتنا کہا اپنی ڈیوٹی کرو جتنی قانون اجازت دیتا ہے اگر تم نے بدمعاشی کی تو پھر میں تمھیں نہ چھوڑوں گا۔
اس کے بعد تھانیدار کی سرعام بدمعاشی تو بند ہو گئی مگر سازش کا سلسلہ نہ رکا۔
انتظامیہ کے ساتھ مل کر حلقہ کے تمام بی ڈی ممبران کو عبدالرحیم کے سامنے بلایا
اور ان سے حلف لینے لگے۔ جس سپاہی کو قرآن شریف پکڑ کر ممبران کے سر پر رکھنے کا کہا ہوا تھا اس سپاہی نے قرآن کے غلاف میں ایک کتاب ڈال رکھی تھی۔ وہ ہر ممبر کے کان میں کہہ رہا تھا فکر نہ کرو ان کے سامنے ہاں کرتے جاو مرضی اپنی کرنا تمھارے سر پر قرآن نہیں یہ انگریزی کی ایک کتاب ہے جو
میں نے لپٹ رکھی ہے۔
بالآخر مرحلہ پولنگ کا آیا تو چند ممبران کے علاوہ سب ممبران عبدالرحیم کے کیمپ میں تھے۔ اور انورعزیز چوہدری متفکر تھے کہ میں نے تو ان کے لئے جنگ لڑی مگر لگتا ہے کہ خود ہی غلام رہنا چاہتے ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہوا دوپہر تک صورتحال یہ تھی کہ جو بھی ممبر اندر ووٹ
ڈال کر آجاتا وہ آکر انورعزیز چوہدری کے گلے ملتا اور کہتا “منڈیا میں اپنا کم کر آیاں وا اگے تیرا کم اے”
یوِں صبح جو لوگ عبدالرحیم کے کیمپ میں تھے سب کے سب ووٹ دے کر انورعزیزچوہدری کے کیمپ میں کھڑے تھے۔
جب شام کو گنتی شروع ہوئی تو ہر ووٹ انورعزیز چوہدری کا نکل رہا تھا صرف
اکا دکا ووٹ عبدالرحیم کے رشتہ داروں کا اس کے سالے عبدالراوف کے حق میں نکلتا۔
رزلٹ مکمل ہوا اور انورعزیز چوہدری پنجاب بھر میں پہلے آزاد حکومت مخالف امیدوار کامیاب ہوئے۔
یوں تحصیل شکرگڑھ جمہوریت کی علمبردار بن گئی۔
اگلا مرحلہ بھی خاصا مشکل تھا جو انورعزیزچوہدری نے طے کیا یہاں تک کہ گورنر پنجاب کالا باغ نے جب انورعزیزچوہدری کو گورنرہاوس بلایا تو سب کو یقین تھا کہ آج انورعزیزچوہدری کی زندگی کا آخری دن ہے مگر یہ دلیر جوان وہاں بھی دلیری کی ایک داستان رقم کر کے زندہ آیا
Be the first to comment on "بابائے سیاست انورعزیز چوہدری کی کہانی"