Categories
Social

پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا انعام

یہ 1985 کے اوائل کی بات ہے، ٹی وی کا صرف ایک چینل تھا اور اس پہ ہفتہ وار ایک ہی معلوماتی اور تفریحی شو ‘نیلام گھر’ ہوا کرتا تھا، جو ہر گھر دیکھا جانے والا ایک مقبول شو تھا۔ معلوماتی مقابلے جیتنے والوں کو اکثر چھوٹے بڑے انعامات ملتے تھے، لیکن عوامی اشتیاق

اس وقت بہت بڑھا جب پہلی بار گاڑی کے انعام کا اعلان ہوا۔ اور اس بڑے انعام کے لیے ایک مشکل شرط رکھی گئی کہ جیتنے والے کو لگاتار سات ہفتے ناقابل شکست رہنا پڑے گا۔ کئی مہینوں تک اس کڑےامتحان میں بہت سےقابل شرکاء نےقسمت آزمائی کی،لیکن کوئی بھی دو ہفتے سےزیادہ مسلسل جیت نہیں سکا

حافظ نسیم الدین، ایک نابینا نوجوان تھا۔ ان کے والد کی کراچی کے علاقے کورنگی میں کتابوں کی دکان تھی ۔ بصارت سے محرومی کی وجہ سے وہ سکول نہ جا سکے، اور کا بچپن اپنے والد کے ساتھ اسی دکان میں گزرا ۔ ان کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے ان کے والد نے ان کو نہ صرف قرآن کا حفظ کروایا،

بلکہ سارا دن دکان میں موجود مختلف کتابیں بھی پڑھ کر سنایا کرتے، جس وجہ سے ان کا معلومات عامہ پر بہت عبور تھا، اور اسی شوق کی وجہ سے انہیں نیلام گھر میں شرکت کا موقع ملا۔

حافظ نسیم کی غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے انہوں نے نیلام گھر کے پہلے ہی پروگرام میں کامیابی حاصل کی اور

بڑھتے چلے گئے۔ ان کے مد مقابل عموما تجربہ کار اور اعلی تعلیم یافتہ ہوتے تھے، لیکن نسیم الدین کا حافظہ کمال کا تھا اور بہت کم غلطیاں کیا کرتے تھے، اور یہی وجہ تھی کہ وہ لگاتار چھ پروگرام جیت گئے۔ گاڑی کے انعام کے لئے ساتویں پروگرام تک پہنچتے پہنچتے وہ بھرپور عوامی توجہ،

دلچسپی اور داد کا مرکز بن چکے تھے۔ ان کی جیت کے لیے چھوٹے بڑے سب، پر خلوص دعائیں کر رہے تھے۔ اس فائنل مقابلے میں ان کا کوئی جواب بھی غلط نہیں تھا، اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ مخالف کو آخری سوال کا جواب نہیں آیا تھا اور اور چند لمحے خاموشی کے بعد اس کا جواب بھی حافظ صاحب نے ہی

دے کر مقابلہ جیت لیا۔ اس دن نسیم الدین کیلئے ہر کوئی خوش تھا، نیلام گھر کا پورا ہال کھڑے ہو کر کئی منٹ تک پرمسرت تالیاں بجاتا رہا، ٹی وی پر لاکھوں دیکھنے والے، اور سب سے بڑھ کر طارق عزیز بہت خوش تھے، جنہوں نےاس دن ملکی تاریخ میں ذہانت پر دیا جانے والا سب سے بڑا انعام، اسے

گاڑی کی چابی کی صورت میں پیش کیا۔

اس تحریر کا مقصد ایک پرانی یاد کو تازہ کرنا اور اس کو موجودہ دور اور اقدار کے تقابل میں جانچنا ہے۔ تقریبا 35 سال گزر گئے، وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ آجکا میڈیا اور اس میں دکھائےجانے والے پروگرام بھی نیلام گھر جیسے نہیں رہے، درجنوں

چینل گیم شوز میں گاڑیاں سونا اور کروڈوں کے انعامات بانٹے جاتے ہیں، ڈانس کر کے بھی بائیک مل جاتی ہے، لیکن نیلام گھر والا مزہ اور ماحول نہیں بن پاتا، ان شوز میں کمپیرنگ کے نام پر ہر قسم کے بھانڈ اچھل کود کرتے ہیں، لیکن کوئی بھی طارق عزیز جیسا نہیں، جن کے پاس ہر کسی کے لیئے مزاح،

مثبت تفریح، سماجی اصلاح اور معلومات دینے کا ایک بےمثال فن اور پروقار جذبہ تھا۔ آج ہر کوئی اپنے مفاد میں مگن ہے، کسی ہم وطن کی کامیابی کی دعائیں تو دور، اب تو کسی کے پاس کسی کیلئیے بے غرض خوش ہونے کا بھی وقت نہیں ہے۔ نیلام گھر کا پاکستان بدل چکا ہے ، میڈیا کا کردار،

ہماری معاشرتی اقدار اور ہمارے لوگوں کا مزاج بھی بدل گیا ہے۔ ہم نے بحیثیت ایک معاشرہ اور قوم کیا کھویا اور کیا پایا ۔۔ یہ فیصلہ آپ خود کریں

 

Please follow and like us:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Exit mobile version