مہدی حسن کے رخصت ہونے پر کہیں پڑھا تھا کہ: ‘بوجہِ علالت ان کی موسیقی ان کی وفات سے دو دہائیوں پہلے ہی بند ہوگئی تھی۔’ مگر فنکار کا اصل ماتم تو اس کی موت کے بعد ہوتا ہے، حالانکہ وہ بعض اوقات موت سے پہلے ہی موت سے زیادہ مصائب کا شکار ہوتا ہے۔ مہدی صاحب نے جتنا نام کمایا، اتنی دولت جمع نہ کرسکے۔ اور فیڈرل بی ایریا کے 120گز (4 مرلہ) کے مکان میں ساری عمر گزار دی۔
پچھلے دس بارہ برسوں میں بیسویں صدی کے کتنے ہی مشاہیر چل بسے۔ مہدی حسن معین اختر کمال احمد رضوی مشتاق احمد یوسفی مختار مسعود اطہر شاہ خاں جیدی جنید جمشید فہمیدہ ریاض غیور اختر منو بھائی عبید اللہ بیگ قریش پور عبداللہ حسین انتظار حسین اشتیاق احمد اے حمید ہاجرہ مسرور ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ آپ ناموں کی نہ ختم ہونے والی فہرست دیکھتے رہیے اور کڑھتے رہیے!
“۔۔۔مرگِ انبوہ کا جشن ہو تو قحط، حیاتِ بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔ ایک عالَم موت کی ناحق زحمت کا دوسرا زندگی کی ناحق تہمت کا۔ ایک سماں حشر کا دوسرا محض حشرات الارض کا۔ زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرجال کا غم کھاتے ہیں۔۔۔” (آوازِ دوست- مختار مسعود)
میں دنیا کو اپنی ذات سے کوئی علم، کوئی فن،کوئی تسکین و طمانیت نہیں دے سکا۔ مگر قحط الرجال کے غم میں ہر موت پر سینہ پیٹتا ہوں۔ اردگرد بسنے والوں اور دن بدن روبہ انحطاط معاشرے کو حشرات الارض سے تشبیہہ دے لیتا ہوں اور اپنے تئیں تیس مار خاں سمجھ لیتا ہوں۔ میں کوشش کر کے بھی مختار مسعود کے پائے کی نثر، یوسفی کے معیار کا مزاح، مہدی حسن کے عشرِ عشیر موسیقی، کمال احمد رضوی جیسا سادہ چبھتا طنز، جیدی جیسا قلندری خاکہ، عبید اللہ بیگ جیسا کامل تنوع، قریش پور جیسا نستعلیق اور شفیق لہجہ، اے حمید جیسی طلسماتی دنیا اور اشتیاق احمد جیسا انتھک قلم نہیں دے سکتا۔۔۔مگر میں سر میں خاک ڈال کر قحط الرجال کا غم کھا کر مُردوں والی زندگی ضرور جی سکتا ہوں۔
قحط الرجال ایک حقیقت ہے۔ قحط الرجال ایک پیشن گوئی بھی ہے جو کہ آثارِ قیامت میں سے ایک ہے۔ قحط الرجال سے مفر ممکن نہیں۔ قحط الرجال کا انبوہِ غم ختم نہیں ہوسکتا مگر کم شاید ہوسکتا ہے ، اگر ہم جانے والے “جیسا” بننے کے بجائے اپنی اپنی نیتِ شوق کو خالص اور طبعزاد رکھیں اور پیمانۂ عمل کو خالی نہ ہونے دیں۔ تمنا کی وسعت اور دشتِ امکاں میں دوسرا قدم ڈھونڈتے ڈھونڈتے جادہ و منزل سے بے خبر نہ ہوجائیں۔ آج فاروق قیصر کے بچھڑ جانے پر دل بہت افسردہ و رنجیدہ ہے۔
مگر وہ تو ہم سے اپنی حیات میں ہی بچھڑ گئے تھے، وہ تو ایک عرصے تک مائل بہ کرم ہی رہے ہوں گے، کون جانے کسی نے ان کی جلائی ہوئی شمع سے اپنی طبعزاد صلاحیتوں کے لیے روشنی لی بھی ہوگی یا نہیں۔ ایک بڑا آدمی، ایک زرخیز دماغ، ایک لازوال فنکار اپنے خداداد فن کے ساتھ روانہ ہوا۔ آوازِ دوست میں مختار مسعود کا “طویل تر” مضمون “قحط الرجال” مجھے بھلائے نہیں بھولتا۔ یوسفی کے آبِ گم کا “ناسٹیلجیا” ۔۔ “ماضیٔ تمنائی” ۔۔۔ اور “یادشِ بخیریا” میری زندگی کا عنوان بن کر رہ گئے ہیں۔
مختار مسعود کا لکھا ایک ایک لفظ سنہری ہے: ” اس وبا میں آدمی کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ مردم شماری ہو تو بے شمار، مردم شناسی ہو تو نایاب۔ دل کی خاطر مجھے منظور تھی کہ اس کو آرزدہ رکھنا کفر ہے۔ اس کی کشادگی کے بہت سے طریق ہیں جو موقع کی مناسبت سے اختیار کرتا ہوں۔۔۔” “۔۔۔مجھے یاد آیا کہ دل جوئی کے لئے ایک بادشاہ چھپ کر پُرانی پوستین سر آنکھوں سے لگاتا تھا۔ ہر شخص کے پاس اس کی پوستین ہوتی ہے مگر اکثر اس سے منکر ہو جاتے ہیں کیونکہ اسے قبول کرنے کے لئے جس جرأت کی ضرورت ہوتی ہے اس کی کمیابی قحط الرجال کی پہلی نشانی ہے۔۔۔”
آج انکل سرگم کے خالق کے اپنے خالق سے وصال پر آوازِ دوست میں قحط الرجال دوبارہ پڑھوں گا۔۔۔ روؤں گا۔۔۔پرانی پوستین کو آنکھوں سے لگا کر بھگوؤں گا۔۔۔ “قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔۔۔” (آوازِ دوست- مختار مسعود) ہر دور میں قحط الرجال کی ایک نئی مثال رقم ہوتی ہے۔ ہر عالم، ادیب و فنکار کی موت قحط الرجال کے معنی کو مزید واضح کردیتی ہے۔
“از کجا می آید ایں آوازِ دوست۔۔۔”
Be the first to comment on "قحط الرجال – الوداع فاروق قیصر"