کل رات ایک دوست سے بات ہوئی۔ اس کے والدین نے اس کی بیس سال کی عمر میں ہی شادی کر دی تھی۔ شادی کے بعد اس کے ساتھ بھی وہی سب ہوا جو اس سے پہلے، اس کے ساتھ اور اس کے بعد کی خواتین کے ساتھ ہوتا رہا ہے یا ہو رہا ہے۔شوہر جو شادی سے پہلے اس کا دیوانہ تھا، شادی کے بعد اس سے متنفر ہو گیا۔
وجہ ماں۔ اسے بہو برداشت نہیں ہوئی۔ ہر بات پر اعتراض۔ اتنی دیر تک کمرے میں کیوں رہتے ہو۔ کب سوتے ہو۔ کب اٹھتے ہو۔ ناشتہ اتنے بجے کیوں ہوتا ہے۔ برتن ایسے کیوں دھلتے ہیں۔ کپڑے ایسے کیوں تہہ ہوتے ہیں۔ پدرشاہی عورت کو محکوم بنا کر رکھتی ہے۔ وہ اس کی خدمت کر کے سمجھتی ہے کہ
یہ کبھی تو اسے طاقت دے گی پر ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ گھر میں دوسری عورت آتی ہے تو وہ سمجھتی ہے کہ میں نے جو اتنے سال محنت کی، یہ اب اس پر قابض ہو کر طاقت ور بن جائے گی۔ یہاں سے وہ سب شروع ہوتا ہے جسے آپ “عورت ہی عورت کی دشمن ہے” کہتے ہیں۔
دوست نے بتایا کہ شروع کے سال بہت برے گزرے۔ اسے اپنے شوہر سے نفرت محسوس ہوتی تھی۔ اس کی پہلی اور دوسری پریگننسی میں بھی شوہر نے اس کا خیال نہیں کیا۔ ایک وقت ایسا تھا جب اس کے پاس کپڑوں کے بس تین جوڑے تھے۔ بچوں کا بھی یہی حال تھا۔
نہ کہیں آنا نہ جانا، اول کپڑے اور جوتے ہی نہیں ہیں۔ دوم، ساس کو اعتراض ہوتا کہ یہاں کیوں گئے، وہاں کیوں گئے۔ اس رشتے دار سے نہ بولو، اس سے بولو۔
ایک بار تو اسے گھر سے بھی نکال دیا گیا۔
پھر واپس لائے۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنے لیے سٹینڈ لیا۔ ساس سے بات چیت بالکل بند کر دی۔ شوہر کو کہہ دیا کہ میرے دل میں تمہارے لیے بس نفرت ہے۔ کچھ کہو گے تو فوراً چلی جائوں گی کیونکہ میں تو پہلے ہی تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ وہ وہاں سے بدلنا شروع ہوا۔ اب اس کا دھیان رکھتا ہے۔
یہ صرف اس کی کہانی نہیں، بہت سی خواتین کی کہانی ہے۔ بتانے کا مقصد یہ کہ آپ سب جو گھریلو تشدد کے خلاف بول رہے ہیں، کبھی تصویر کا یہ رخ بھی دیکھ لیں۔ یہ بھی گھریلو تشدد ہے۔ کسی کی زندگی کنٹرول کرنا، انہیں ان کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھنا، بس اس لیے کہ انہوں نے آپ سے شادی کی ہے؟
اپنی سوچ بدلیں۔ شادی عورت پر احسان نہیں ہے نہ اس کی زندگی کا مقصد ہے۔ عموماً تشدد شادی کے بعد ہی شروع ہوتا ہے، اس لیے یہاں اسی کی بات کی جا رہی ہے۔ خواتین اپنا نصیب خود ہیں۔ انہیں پڑھائیں، لکھائیں، اپنے پیروں پر کھڑا کریں۔
ان کے ہاتھ پائوں کاٹ کر انہیں اس رشتے میں نہ پھینکیں۔ طلاق لینا ان کے لیے آسان نہیں ہوتا کہ ہر نیا مرد پچھلے سے بڑا ******* ہوتا ہے۔ اور معاشرہ اسے بڑا ******** جو عورت کو بغیر مرد کے قبول نہیں کرتا۔ پہلے خود بدلو، پھر معاشرہ بدلے گا۔
مردوں کی بے حسی اور بند دماغ دیکھیں. سادہ اردو میں لکھی بات بھی سمجھنے سے قاصر ہیں. کسی عورت نے نہیں کہا کہ یہ بس ایک آدھ قصہ ہے یا عورت عورت کی دشمن ہے، مرد بے قصور ہے، صرف اور صرف مرد بلبلا رہے ہیں. اب بھی مسلہ سمجھ نہیں آ رہا یا اپنی انا کے ہاتھوں مجبور ہو؟
Be the first to comment on "شادی کے بعد اس کے ساتھ بھی وہی سب ہوا"