بھٹو کے مقدمے میں 9 جج تھے- جسٹس قیصر دوران سماعت ریٹائیر ہو گئے- ججوں کے ریمارکس سے ظاہر ہوتا تھا کہ جسٹس وحیدالدین لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے مطمئن نہیں تھے- ان کو دل کی تکلیف ہوئی اور ملٹری ہسپتال میں داخل ہو گئے- انہوں نے چیف جسٹس کو کہا کہ ان کی واپسی تک سماعت ملتوی کر دیں
چیف نے انکار کر دیا- وحیدالدین نے کہا کہ جب آپ ملائیشیا گئے تو کیس 6 ہفتے تک ملتوی رہا- میں نے سات مہینے کیس سنا ہے میرا انتظار کر لیں- انوارالحق نے ان سے ملاقات کی اور کہا کہ کیس میں پھانسی نہیں بنتی ہم مشترکہ طور پر اس کو عمر قید میں تبدیل کر دیتے ہیں- وحیدالدین نے انکار کر دیا
جسٹس صفدر شاہ نے سنا تو انہوں نے انوارالحق سے پوچھا کہ آپ نے وحیدالدین پر دباو ڈالنے کی کوشش کی؟ انوارالحق غصے سے بولے کہ صفدر تمہیں معلوم نہیں کہ میرے پر کتنا دباو ہے- سنا ہے صفدر شاہ نے اس گفتگو کو ریکارڈ کر لیا- بھٹو کو چار ججوں نے پھانسی برقرار رکھی- چاروں کا تعلق پنجاب سے
تھا- تین ججوں نے بری کر دیا- جنرل ضیا کو صفدر شاہ پر اتنا غصہ تھا کہ ریفرینس بھیج دیا کہ میٹرک کی سند جعلی ہے- اتنا دھمکایا کہ صفدر شاہ خچر پر بیٹھ کر افغانستان چلے گئے- اور غالبا ادھر ہی انتقال کر گئے-
عدلیہ کی داستان ایسی ہی تھی- ایسی ہی ہے- عوام انصاف صرف اپنے لیڈر کے لئے
چاہتے ہیں- وہ جج پسند ہوتا ہے جو آپ کے لیڈر کو فائیدہ اور مخالف کو ڈنڈا دے کر رکھتا ہے-
جب تک ایسا چلتا رہے گا ایسی ہی عدلیہ رہے گی-
سر دنیا کے کس کونے میں اس طرح کا عدل اور عادل نہیں ہوتے حالیہ امریکی صدر ٹرمپ کے جج ہمیشہ اس کی منشا کے مطابق فیصلہ دیتا انڈین عدالتیں مودی صاحب کے خلاف کبھی فیصلہ نہیں دیتے
پاکستانی عدلیہ کے دباوٴ والے فیصلوں کی تاریخ بہت لمبی ہے_ جج منیر سے شروع کریں اور جج کھوصہ تک آ جائیں ، اور نہ جانے کب تک یہ صلصلہ جاری رہے گا۔
Be the first to comment on "بھٹو کے مقدمے میں عدل اور عادل"