سانحہ پاکپتن، سانحہ ٹوبہ، سانحہ سیالکوٹ، سانحہ گوجرانوالہ، سانحہ پشاور

سانحہ پاکپتن، سانحہ ٹوبہ، سانحہ سیالکوٹ، سانحہ گوجرانوالہ، سانحہ پشاور

اپنی شعوری زندگی میں سب سےپہلے لفظ ‘سانحہ’ غالباً 14جولائی1987 کو بوہری بازار دھماکوں کےوقت سنا، شاید اس وقت کسی سے لفظ سانحہ کا مطلب سمجھےکی کوشش بھی کی تھی۔ بوہری بازار دھماکوں میں 87سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ اس وقت یوں لگتاتھا کہ یہ دن قومی تاریخ میں ہمیشہ سیاہ دن کےطور پر

منایا جائے گا، اس دن کی تاریکی ذہن پر اس حد تک تھی کہ کئی دن تک مناسب سو نہ پایا، دھماکوں کا الزام افغان خفیہ ایجنسی خاد کے سر آیا۔۔نو عمر تھا، شعور اور مشاہدہ بیدار ہو رہا تھا سو دل کے کسی گہرائی میں یہ خواہش مچلتی کہ تمام کاروبارِ زندگی ترک کر کے اس دن کو تب تک منایا جائے جب

تک اربابِ اختیار ایسے دھماکوں کا مستقل سدِ باب نہیں کر لیتے۔ لیکن پھر یوں ہوا کی اخبارات کے ضمیموں میں چار ایک دن سانحہے بوہری بازار کی تباہی و ہلاک ع زخمیوں کی تصاویر آتی رہیں، پی ٹی وی کی نشریات میں خشوع کے ساتھ ساتھ ایک سوگ کئ کیفیت رہی اور پھر آہستہ آہستہ اخبارات نے

فلمی اداکاروں کی ہلکی پھلکی خبروں سے شروعات کی اور پی ٹی وی ملی نغموں سے سوگ کی کیفیت ختم کرنے کا اشارہ دیا اور پھر چل سو چل۔۔دو تین ہفتوں بعد سانحہء بوہری بازار اخبارات کے اندرونی صفحات کی ایک معمولی ضمنی خبر بن چکا تھا، غیر شعوری طور پر ذرائع ابلاغ سے ذہنی طور پر گندھے عوام نے+

بھی میڈیا ٹرانس کو قبول کرتےہوئےسانحہ کو بھول جانے میں عافیت سمجھی۔ میرے لئیےصورتحال اس وقت بھی کافی تکیلف دہ تھی، ذہن میں بار بار یہ سوال اٹھتا کہ ایسے کیسے؟
ستاسی لوگوں کی جانیں گئیں اور میڈیا اداکارہ نیلی اور اداکار جاوید شیخ کے نئے افئیر کے بارے کیسے زیادہ پریشان ہو سکتا ہے؟

پھر آہستہ آہستہ ذہن نے بےحسی کو قبول کرنا شروع کر دیا۔۔مگر پھر چند مہینوں بعد ہی 10اپریل1988 کو سانحہء اوجڑی کیمپ بپا ہو گیا۔۔ایک دفعہ پھر سے جیسے زخم تازہ ہو گئے۔۔پھر ایک سانحہ، پھر چںد روز سوگ کی کیفیت اور پھر دو دن ملی نغمے اور پھر اداکارہ انجمن کے نئے ٹھمکے اخبارات کی زینت۔۔

پھر سانحہ بہاولپور ہو گیا۔۔یوں لگا کہ اب کے واقعی ایک ایسا سانحہ ہوا ہے جس کو کبھی نہیں بھلایا جائے گا جب تک ایسے سانحوں کا مکمل تدارک نہیں کر لیا جاتا۔ لیکن پھر وہی سوگ، ملی نغمے، اداکارہ مسرت شاہین کے ٹوٹے، وہی گھن چکر۔۔۔اللہ اللہ خیر صلہ
پھر یوں ہوا کہ ہم نو عمری سے نوجوانی

اور نوجوانی سے جوانی اور عمر رفتہ کے سفر میں آگے بڑھتے گئے اور یکے بعد دیگرے سانحہ پہ سانحہ ہوتا گیا۔
سانحہ سکھر، سانحہ روہڑی، سانحہ شکارپور، سانحہ صادق آباد، سانحہ کوئٹہ، سانحہ فیصل آباد، سانحہ لاہور، سانحہ شیخو پورہ، سانحہ گوجرہ، سانحہ ساہیوال، سانحہ کوئٹہ، سانحہ ایبٹ آباد۔

سانحہ پاکپتن، سانحہ ٹوبہ، سانحہ سیالکوٹ، سانحہ گوجرانوالہ، سانحہ پشاور۔۔وغیرہ ۔۔حتیٰ کہ یادداشت نے ساتھ چھوڑ دیا لیکن سانحوں کی قطار نے ختم ہونے کا نام نہیں لیا۔ اس سب میں سب سے حیرت کی بات یہ رہی کہ کسی بھی سانحہ کی مکمل تحقیقاتی رپورٹ کبھی عوام کے سامنے نہیں لائی گئی، کسی بھی

سانحے کے حقیقی ذمہ دار کرداروں کا کبھی تعین نہ ہو سکا۔۔سانحہ بوہری بازار کا پاکستان میں پہلا دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا جاتا ہے آج چونتیس سال بعد بھی ہم غفلت کے ذمہ داروں کا تعین کرنے سے قاصر ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں ماضی میں ہونے والے کسی بھی سانحہ کے بارے سوال اٹھانے کی نہ

صلاحیت اور نہ دلچسپی۔ عوام میڈیا کی مستقل ٹرانس میں ہیں۔ ہر سانحے کے بعد وہی چند دن سوگ، ملی نغمے اور پھر کسی اداکارہ کا نیا سکینڈل اہمیت کا حامل قرار پانا۔۔اس روئیے نے ہمارے معاشرے کو اجتماعی طور پر ایک تماشبین معاشرے میں تبدیل کر ڈالا ہے۔ ہم میں سے ہر

ایک فرد اس وقت تک تماشبین کا کردار نبھانا چاہتا ہے جب تک ہم خود یا ہمارا کوئی پیارا تماشا نہ بن جائیں۔ جہاں سوال، احتساب اور تعزیر کا ڈر صرف چند روز کا ہو وہاں کوئی تماشا بھی ممکن ہے۔ وہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور کوئی بھی سزا سے بچ سکتا ہے شرط صرف با رسوخ اور طاقتور ہونے کی ہے۔

جس قوم کا نصف ان سے جان چھڑا کر بھاگ گیا ہو،جن وجوہات کی وجہ سے وہ بھاگا تھا ان وجوہات کا بھوت ننگا ہو کر پوری دنیا میں ناچ ناچ کر ہمیں ننگا کر رہا ہو،وہ قوم خود پرستی کے اس مرحلے پر ہو کہ خود کو اللہ کا ایک راز سمجھتی ہو،قیامت تک قائم رہنے کو مانتی ہو، وہاں کوئی سانحہ سانحہ نہیں

وطن عزیز میں انسانی جان بے وقعت ہے ذمے داری ریاستی اداروں و حکومت پر عائد ہوتی ہے امریکیوں نے تہیہ کرلیا تھا کہ دوسرا 9/11 نہیں ہونے دینا ایسا ہی ہوا بلآخر تمام زمے داروں کو کیفر کردار تک پہچایا دوسرے ملکوں میں گھسنے سے بھی دریغ نہیں کیا

Please follow and like us:

Be the first to comment on "سانحہ پاکپتن، سانحہ ٹوبہ، سانحہ سیالکوٹ، سانحہ گوجرانوالہ، سانحہ پشاور"

Leave a comment

Your email address will not be published.


*


RSS
Follow by Email
WhatsApp