ٹویوٹا کمپنی نے1984 میں نارتھ امریکہ میں نیا کار اسمبلنگ پلانٹ لگانےکا اعلان کیا اور چند ممکنہ جگہوں کا انتخاب کیا تو ان شہروں کے درمیان کار پلانٹ حاصل کرنےکی جدوجہد شروع ہوگئی۔ وجہ یہ تھی کہ کار اسمبلنگ پلانٹ جس شہر میں بھی جاتا تین چار ہزار افراد کےبراہِ راست روزگار اور
اس سے تین گنا افرادی قوت کو بالواسطہ روزگار مہیا ہوجاتا، یہ پلانٹ شہری حکومت کو بھاری ٹیکس ادا کرتا اور یوں شہر کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا۔ یہ پلانٹ ٹویوٹا کا جارج ٹاؤن کینٹکی امریکہ کے بعد دوسرا بڑا آٹوموٹِو اسمبلی پلانٹ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ٹویوٹا نے اسکے لئیے پانچ شہروں
کا انتخاب کیا، ان میں سے تین جگہیں امریکہ میں اور دو کینیڈا میں تھیں۔ اونٹاریو صوبے میں واقع کیمبرج شہر بھی اس فہرست میں شامل تھا۔ کیمبرج کی شہری حکومت کو جب ٹویوٹا کے نئے پلانٹ کیلئیے کیمبرج پر نظر کا علم ہوا تو انہوں نے ہر قیمت پر یہ پلانٹ اپنے شہر میں لگوانے کا ذہن بنا لیا۔
اس کیلئیے سٹی آفس میں طویل میٹنگ ہوئی اور شرکاء نےمتفقہ فیصلہ کیا کہ ایک ریسرچ فرم ہائیر کی جائے جو انکو بتائے کہ جاپانیوں کو یہ پلانٹ کیمبرج میں لگوانے کیلئیے کیسے راضی کیاجائے؟ ایک ایسی فرم تلاش کر لی گئی جو لابنگ میں ایکسپرٹ تھی اور جاپانی کلچر سے واقف تھی۔ اس فرم نے 1984 میں+
شہری انتظامیہ سے ایک لاکھ ڈالرز چارج کر کے صرف ایک مشورہ دیا۔ وہ واحد مشورہ جو ریسرچ فرم نے دیا وہ یہ تھا کہ جاپانیوں میں ادب آداب کا بہت سخت خیال رکھا جاتا ہے ( نارتھ امریکن ورک سٹائل قدرے rude اور رکھ رکھاؤ اور لحاظ سے عاری ہوتا ہے) کہا گیا کہ آپ اپنی عام روٹین سے
ہٹ کر جاپانیوں کی مکمل عزت افزائی کریں ان سے بلاوجہ اختلاف نہ کریں، جاپانی کلچر کے مطابق ہاتھ ملاتے ہوئے تھوڑا سا آگے کو جھک کر ملیں۔ ہاتھ ملانے کو صرف اس وقت ہاتھ آگے بڑھائیں جب جاپانی خود ہاتھ بڑھائیں ورنہ جھُک کر ملنے پر اکتفا کریں۔ شہری انتظامیہ نے مشوروں کو پلے باندھ لیا۔
جاپانی آئے، ملاقات ہوئی اور شہری انتظامیہ نے ٹیکس بینیفٹس اور ٹرانسپورٹیشن کی سہولیات آفر کرنےکےعلاوہ جاپانی کلچر کےمطابق خوب ادب آداب، لحاظ اور رکھ رکھاؤ سے ڈیل کیا۔ 1985 میں ٹویوٹا نے فیصلہ سنایا کہ انکا نارتھ امریکہ میں دوسرا بڑا اسمبلنگ پلانٹ کیمبرج اونٹاریو میں لگایا جائےگا
1986 میں پلانٹ کا سنگِ بنیاد رکھا گیا اور 1988میں پلانٹ مکمل ہو کر آپریشنل ہو گیا۔ پلانٹ شہر میں آنے کے اگلے دس سال کے اندر اندر شہر کی کایا پلٹ گئی، کیمبرج شہر جو کہ کسی دور میں ٹیکسٹائل پروڈکٹس کیلئیے جانا جاتا تھا دس سال سےکم عرصے میں تمام شہر آٹو موٹِو مینیوفیکچرنگ پلانٹس سے
پُر ہو گیا، لوگ دوسرے شہروں سے روزگار کیلئیے علاقے میں منتقل ہونا شروع ہو گئے۔ اچھی یونیورسٹیاں علاقے میں پہلے سے موجود تھیں، ٹویوٹا کے آنے کےبعد BlackBerry اور OpenText نے بھی اسی علاقے میں جنم لیا اور یہ علاقہ کینیڈا کی ٹیکنالوجی ہب یا سیلیکون ویلی کہلانے لگا۔
ٹویوٹا نے جلد
کیمبرج اونٹاریو میں ہی دوسرا پلانٹ لگا دیا۔ یوں کیمبرج شہر میں دو پلانٹس میں کرولا، لیکسز350، میٹرکس وغیرہ بننے لگیں۔2005میں ٹویوٹا نے کیمبرج سے ذرا فاصلے پر وُوڈسٹاک شہر میں تیسرا پلانٹ لگا کر RAV4 بنانے کا اعلان کر دیا۔ 2008 میں تیسرے پلانٹ کا افتتاح ہوگیا یوں 9700افراد کو
براہ راست اور 20000افراد کو بالواسطہ روزگار مہیا ہوا۔
2012میں ٹویوٹا نے 80ملئین ڈالرز مزید انویسٹمنٹ کا اعلان کیا، 2015 میں 421ملئین ڈالرز اور 2018 میں 1.2بلئئن ڈالرز ٹویوٹا کی طرف سے مزید اس علاقے میں انویسٹ ہوئے۔ یہ ہے ایک چھوٹی سے مثال ہے کہ اگر معاملات کو درست طریقے سے ہینڈل
کیا جائے تو کیسےنسلوں کی قسمت بدل سکتی ہے۔
اب آتےہیں دوسری طرف۔۔
اس ٹویٹ میں دی گئی تصویر دیکھیں اور تصویر دیکھتےہوئے ذہن میں رکھیں کہ جوتے کا تلوا دیکھانا عربوں میں شدید بےعزتی، بدتمیزی اور گالی تصور کی جاتی ہے۔ عرب کسی دوسرےکی رعونت اور تکبر کو شدید سخت ناپسند کرتے ہیں۔
اختتام
By Imran with Twitter handle @ideas2025. Originally published here.
یہ ایمان کی نری بے ایمانی ہے، اس نے یہ تحریر چوری کی ہے ۔۔۔ یہ تحریر کل ہمارے دوست عمران نے اپنی ٹوئیٹر ٹائم لائن پر لکھی تھی ۔۔ جو اس ایمان صاحبہ نے حرف بحرف چوری کر کے یہاں چھپوا دی ہے ۔۔ ہمارے دوست کا ٹوئیٹر ہینڈل @ideas2025 ہے ۔۔
آپ چیک کر سکتے ہیں
کیا آپ نے چیک کیا کہ یہ تحریر چوری کی ہے؟ ویسے اس سلسلے میں کیا آپ کی ویب سائٹ کی کوئی پالیسی بھی ہے؟
ریفرینس کیلئے اصل اور اوریجنل تھریڈ کا لنک پیش خدمت ہے 👇
https://twitter.com/ideas2025/status/1476205666201128961?t=8HORwdOjEjNMLE_nlBTvuA&s=19
شرم تو نہیں آئی ہو گی کسی کی کاوش کو اپنے نام سے چھاپ دیا
Shame on you for stealing my twitter thread and postong with your own name. Such a thief!!