Categories
Social

آئس کا نشہ

بچے منشیات بیچنے والے کو ڈھونڈ سکتے ہیں لیکن پولیس انکو نہیں ڈھونڈ سکتی؟

یہ سارے مافیاز پولیس اور عدلیہ کی ملی بھگت سے چلتے ہیں اور جب معاشرہ اخلاقی پستی کا شکار ہوتو ایسے مافیاز سینہ چوڑا کرکے گھومتے ہیں۔

کیسے ڈھونڈے۔جب بگل میں چھورا شہر میں ڈھنڈورا ہو تو۔۔سب سے بڑی کرپٹ ہی پولیس ہے۔رات کو تو تھانوں میں اصل کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ایک گاڑی جو صرف غلط یوٹرن کی وجہ سے بند ہو گئی پولیس والوں نے رات دس بجے تیرہ ہزار روپے لے کر چھوڑا نہ پرچہ نہ درخواست۔یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے

پولیس والے خود بیچنے والوں کے سفوں میں شامل ہیں ۔ ڈھونڈنے سے کاروبار میں خلل واقع ہو سکتی ہے ۔

کبھی کراچی یونیورسٹی چکر لگا لیں سر چکرا جائے گا، کلاسز خالی کینٹینز 12 گھنٹے تک نام نہاد طلبہ و طالبات سے بھری ہوئی ہونگی جہاں ہر طرح کا فیشن و نشہ آپکو مل جائے گا۔

ویسے تو غربت ہے لیکن نشے کے لیے بہت پیسے ہیں
ایسے لوگوں کو مرنے دینا چاہیے تاکہ ملک پر سے بوجھ کم ہو

پولیس خود اس دندے میں شامل ھے۔ محمد زادہ آئس کے خلاف تحریک چلا رھے تھے۔ بیچارے کو شھید کر دیا۔ اور موت سے پہلے خود کھا تھا۔ کہ اے سی اور ڈی سی سے ۔مجھے خطرہ ہے۔

باقی آپ خود ذہین سمجھدار ہو۔اگر صرف پولیس اور کسٹم بی ایم پی اہلکاروں کی جائیداد اثاثوں کی چھان بین صحیح معنوں میں کی جائے تو معلوم پڑے کہ سمگلنگ ڈیزل سمگلنگ سگریٹ کپڑا گٹکا سب چیزوں میں یہی ہی ملوث ہیں۔بی ایم پی اور کسٹم اہلکاروں کی تو رات کو دبئی لگا ہوتا ہے

اسکول کے دنوں میں farewell کا فنکشن تھا. کچھ لڑکے سن گلاسز لگا کر آئے ہوئے تھے. بڑی حیرت تھی ہمیں کہ رات میں کون یہ والے چشمے لگاتا ہے.
بعد میں پتا چلا کہ وہ لونڈے چرس لگا کر آئے تھے. بہت افسوس اور تعجب ہوا. وقت کے ساتھ سمجھ آیا کہ پولیس والوں کی سرپرستی میں یہ سارا کام ہوتا ہے

پولیس بھی ڈھونڈ لیتی ہے مگر پولیس والوں کو ان کے پاس سے منشیات برآمد ہونے سے پہلے منشیات فروش نوٹ درآمد کر لیتے ہیں۔

ساری دنیا منشیات بکتے ھوئے اور پیتے ھوئے دیکھ رہی ھے لیکن پولیس کا کہنا ھے 15 پر کال کرو ۔
اگر پکڑیں گے بھی تو چند کیڑے مکوڑے۔
منشیات فروشی کے پیچھے موجود اصل مگرمچھ سیاستدانوں کو پولیس نہیں پکڑ سکتی۔

جس ملک کے وزیراعظم پہ نشے کا الزام ہو وہاں کے تعلیمی ادارے کیسے بچ سکتے ہیں

اگر پولیس کسی تعلیمی ادارے پر منشیات کی برآمدگی کے لیے ریڈ کرے تو فوراً روڈ بلاک ہو جاتے ہیں کیونکہ ادارے کی توہین ہو جاتی ہے اور ہاں آئس کے نشہ میں زیادہ تر ریئس زادے یا بیروکریٹس کے بچے ہوتے ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں ہوتا ورنہ متعلہ پولیس کے اسی دن معطلی کے آرڈر آجاتے ہیں

کیونکہ تمام متعلقہ پولیس والوں تک وقت سے پہلے ہی ایڈوانس میں اپنا اپنا حصہ پہنچ جاتا ہے۔

یہ سب کچھ پولیس کی مدد سے ہی ہو رہا ہے. یہاں قانون ہی منشیات فروشوں کا مدد گار ہے

پورے ملک میں پولیس والوں کی سرپرستی میں منشیات کا کام چلتا ہے خصوصاً سندھ میں تو پولیس ہی اس کی وزیروں کی مدد سے چلاتی ہے

ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں ہے لاہور کے مالز میں یہ عام فروخت ہو رہی ہے ۔

سرکار تو آپ کی ہے ادارے بھی سب آپ کے ہاتھ ہیں شکوہ کس سے کر رہی ہیں ٹیگ کریں اپنے لمبی کمبی چھوڑنے والے وزیر اعظم کو

کیونکہ پولیس نے منشیات فروشوں کو سلیمانی ٹوپی دے رکھی ہیں کہ کسی کو دکھائی نہ دیں۔

 

Please follow and like us:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Exit mobile version