Categories
Social

کیسےنسلوں کی قسمت بدل سکتی ہے

ٹویوٹا کمپنی نے1984 میں نارتھ امریکہ میں نیا کار اسمبلنگ پلانٹ لگانےکا اعلان کیا اور چند ممکنہ جگہوں کا انتخاب کیا تو ان شہروں کے درمیان کار پلانٹ حاصل کرنےکی جدوجہد شروع ہوگئی۔ وجہ یہ تھی کہ کار اسمبلنگ پلانٹ جس شہر میں بھی جاتا تین چار ہزار افراد کےبراہِ راست روزگار اور

اس سے تین گنا افرادی قوت کو بالواسطہ روزگار مہیا ہوجاتا، یہ پلانٹ شہری حکومت کو بھاری ٹیکس ادا کرتا اور یوں شہر کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا۔ یہ پلانٹ ٹویوٹا کا جارج ٹاؤن کینٹکی امریکہ کے بعد دوسرا بڑا آٹوموٹِو اسمبلی پلانٹ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ٹویوٹا نے اسکے لئیے پانچ شہروں

کا انتخاب کیا، ان میں سے تین جگہیں امریکہ میں اور دو کینیڈا میں تھیں۔ اونٹاریو صوبے میں واقع کیمبرج شہر بھی اس فہرست میں شامل تھا۔ کیمبرج کی شہری حکومت کو جب ٹویوٹا کے نئے پلانٹ کیلئیے کیمبرج پر نظر کا علم ہوا تو انہوں نے ہر قیمت پر یہ پلانٹ اپنے شہر میں لگوانے کا ذہن بنا لیا۔

اس کیلئیے سٹی آفس میں طویل میٹنگ ہوئی اور شرکاء نےمتفقہ فیصلہ کیا کہ ایک ریسرچ فرم ہائیر کی جائے جو انکو بتائے کہ جاپانیوں کو یہ پلانٹ کیمبرج میں لگوانے کیلئیے کیسے راضی کیاجائے؟ ایک ایسی فرم تلاش کر لی گئی جو لابنگ میں ایکسپرٹ تھی اور جاپانی کلچر سے واقف تھی۔ اس فرم نے 1984 میں+

شہری انتظامیہ سے ایک لاکھ ڈالرز چارج کر کے صرف ایک مشورہ دیا۔ وہ واحد مشورہ جو ریسرچ فرم نے دیا وہ یہ تھا کہ جاپانیوں میں ادب آداب کا بہت سخت خیال رکھا جاتا ہے ( نارتھ امریکن ورک سٹائل قدرے rude اور رکھ رکھاؤ اور لحاظ سے عاری ہوتا ہے) کہا گیا کہ آپ اپنی عام روٹین سے

ہٹ کر جاپانیوں کی مکمل عزت افزائی کریں ان سے بلاوجہ اختلاف نہ کریں، جاپانی کلچر کے مطابق ہاتھ ملاتے ہوئے تھوڑا سا آگے کو جھک کر ملیں۔ ہاتھ ملانے کو صرف اس وقت ہاتھ آگے بڑھائیں جب جاپانی خود ہاتھ بڑھائیں ورنہ جھُک کر ملنے پر اکتفا کریں۔ شہری انتظامیہ نے مشوروں کو پلے باندھ لیا۔

جاپانی آئے، ملاقات ہوئی اور شہری انتظامیہ نے ٹیکس بینیفٹس اور ٹرانسپورٹیشن کی سہولیات آفر کرنےکےعلاوہ جاپانی کلچر کےمطابق خوب ادب آداب، لحاظ اور رکھ رکھاؤ سے ڈیل کیا۔ 1985 میں ٹویوٹا نے فیصلہ سنایا کہ انکا نارتھ امریکہ میں دوسرا بڑا اسمبلنگ پلانٹ کیمبرج اونٹاریو میں لگایا جائےگا

1986 میں پلانٹ کا سنگِ بنیاد رکھا گیا اور 1988میں پلانٹ مکمل ہو کر آپریشنل ہو گیا۔ پلانٹ شہر میں آنے کے اگلے دس سال کے اندر اندر شہر کی کایا پلٹ گئی، کیمبرج شہر جو کہ کسی دور میں ٹیکسٹائل پروڈکٹس کیلئیے جانا جاتا تھا دس سال سےکم عرصے میں تمام شہر آٹو موٹِو مینیوفیکچرنگ پلانٹس سے

پُر ہو گیا، لوگ دوسرے شہروں سے روزگار کیلئیے علاقے میں منتقل ہونا شروع ہو گئے۔ اچھی یونیورسٹیاں علاقے میں پہلے سے موجود تھیں، ٹویوٹا کے آنے کےبعد BlackBerry اور OpenText نے بھی اسی علاقے میں جنم لیا اور یہ علاقہ کینیڈا کی ٹیکنالوجی ہب یا سیلیکون ویلی کہلانے لگا۔
ٹویوٹا نے جلد

کیمبرج اونٹاریو میں ہی دوسرا پلانٹ لگا دیا۔ یوں کیمبرج شہر میں دو پلانٹس میں کرولا، لیکسز350، میٹرکس وغیرہ بننے لگیں۔2005میں ٹویوٹا نے کیمبرج سے ذرا فاصلے پر وُوڈسٹاک شہر میں تیسرا پلانٹ لگا کر RAV4 بنانے کا اعلان کر دیا۔ 2008 میں تیسرے پلانٹ کا افتتاح ہوگیا یوں 9700افراد کو

براہ راست اور 20000افراد کو بالواسطہ روزگار مہیا ہوا۔
2012میں ٹویوٹا نے 80ملئین ڈالرز مزید انویسٹمنٹ کا اعلان کیا، 2015 میں 421ملئین ڈالرز اور 2018 میں 1.2بلئئن ڈالرز ٹویوٹا کی طرف سے مزید اس علاقے میں انویسٹ ہوئے۔ یہ ہے ایک چھوٹی سے مثال ہے کہ اگر معاملات کو درست طریقے سے ہینڈل

کیا جائے تو کیسےنسلوں کی قسمت بدل سکتی ہے۔
اب آتےہیں دوسری طرف۔۔
اس ٹویٹ میں دی گئی تصویر دیکھیں اور تصویر دیکھتےہوئے ذہن میں رکھیں کہ جوتے کا تلوا دیکھانا عربوں میں شدید بےعزتی، بدتمیزی اور گالی تصور کی جاتی ہے۔ عرب کسی دوسرےکی رعونت اور تکبر کو شدید سخت ناپسند کرتے ہیں۔
اختتام

By Imran with Twitter handle @ideas2025. Originally published here.

Categories
Politics

Mufti Qavi Full Uncut Leaked Viral Video

Mufti Qavi Full Uncut Leaked Viral Video
Categories
Social

میرا شوہر نامرد ہیے

میرا شوہر نامرد ہیے ، مجھے خلع چاہیے تنسیخ نکاح کا عام سا کیس تھا، اچھی پڑھی لکھی فیملییی تھی – – – دو پیارے سے بچے تھے کیوٹ اور معصوم سے لیکن خاتون بضد تھی کہ اسکو ہر حال میں خلع چاہیے ، جبکہ میرا موکل مدعا علیہ شوہر شدید صدمے کی کیفیت میں تھا –

ِجج صاحب اچھے آدمی تھے انہوں نے کہا کہ آپ میاں بیوی کو چیمبر میں لیجا کر مصالحت کی کوشش کرلیں شاید بات بن جائے مدعاعلیہ (شوہر) کا وکیل ہونے کے ناطے اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق فوری حامی بھر لی جبکہ مدعیہ کے وکیل نے اس پر اچھا خاصہ ہنگامہ بھی کیا لیکن خاتون بات چیت کے لئیے

راضی ہو گئی۔
وہ دونوں میاں بیوی میرے سامنے بیٹھے تھے:-
” ہاں خاتون ! آپ کو اپنے شوہر سے کیا مسئلہ ہے”؟ – –
” وکیل صاحب یہ شخص مردانہ طور پر کمزور ہیں”. – –
میں اسکی بے باکی پر حیران رہ گیا ، میرے منہ سے ایک موٹی سی گندی سی گالی نکلتے نکلتے رہ گئی البتہ منہ میں تو دے ہی ڈالی

ویسے تو کچہری میں زیادہ تر بے باک خواتین سے ہی واسطہ پڑتا ہے لیکن اس خاتون کی کچھ بات ہی الگ تھی
اسکے شوہر نے ایک نظر شکایت اس پر ڈالی اور میری طرف امداد طلب نظروں سے گھورنے لگا ، میں تھوڑا سا جھلا گیا کہ کیسی عورت ہے ذرا بھی شرم حیا نہیں ہے – –
تو میں نے بھی شرم و حیا کا تقاضا

ایک طرف رکھا
اور تیز تیز سوال کرنا شروع کر دیے ، جب اس سے پوچھا :-
” کیا اپنے مرد سے اسکا گزارہ نہیں ہوتا”؟
تو کہتی ہے کہ:-
” ماشاءاللہ دو بچے ہیں ہمارے ، یہ جسمانی طور پہ تو بالکل ٹھیک ہیں” – – –
” تو بی بی پھر مردانہ طور پر کمزور کیسے ہوئے”؟
وکیل صاحب! میرے بابا دیہات

میں رہتے ہیں ، زمینداری کرتے ہیں ، ہم دو بہنیں ہیں ، میرے والد ہمیں کبھی” دھی رانی” سے کم بلایا ہی نہیں – – – اور میرے شوہر مجھے” کتی ” کہہ کے بلاتے ہیں – – – یہ کونسی مردانہ صفت ہے وکیل صاحب –
مجھ سے کوئی چھوٹی موٹی غلط ہو گائے یہ میرے پورے میکے کو ننگی ننگی گالیاں دیتے ہیں

– – آپ ہی بتائیں جی اس میں میرے مائیکے کا کیا قصور ہے – – – یہ مردانہ صفت تو نہیں نا کہ دوسروں کی گھر والیوں کو گالی دی جائے – –
وکیل صاحب ! میرے بابا مجھے شہزادی کہتے ہیں – اور یہ غصے میں مجھے ” کنجری” کہتے ہیں – – وکیل صاحب ! مرد تو وہ ہوتا ہے نا جو کنجری کو بھی اتنی عزت

دے کہ وہ کنجری نہ رہے اور یہ اپنی بیوی کو ہی کنجری کہہ کر پکارتے ہیں – – – یہ کوئی مردانہ بات تو نہیں ہوئی نہ – – –
وکیل صاحب اب آپ ہی بتائیں کیا یہ مردانہ طور پر کمزور نہیں ہیں” ؟ – –
میرا تو سر شرم سے جھک گیا تھا اسکا شوہر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسکی طرف دیکھ رہا تھا
” اگر یہی

مسئلہ تھا تو تم مجھے بتا سکتی تھیں نہ ، مجھ پر اسقدر ذہنی ٹارچر کرنے کی کیا ضرورت تھی ” ؟
” آپ کو کیا لگتا ہے آپ جب میری ماں بہن کے ساتھ ناجائز رشتے جوڑتے ہیں – – – میں خوش ہوتی ہوں؟ – – اتنے سالوں سے آپکا کیا گیا یہ ذہنی تشدد برداشت کر رہی ہوں اسکا کون حساب دے گا؟ “

خیر جیسے تیسے منت ترلہ کر کے سمجھا بجھا کے انکی صلح کروائ۔۔میرے موکل نے وعدہ کیا کہ وہ آئئندہ اب کبھی اپنی بیوی کو گالی نہیں دے گا – – – وہ دونوں چلے گئے
میں کافی دیر تک وہیں چیمبر میں سوچ بچار کرتا رہا کہ گالیاں تو میں نے بھی اس خاتون کو اس کے پہلے

جواب پر دل ہی دل میں بہت دی تھیں ،شاید میں بھی نامرد ہوں – –
اور شائید ہمارے معاشرہ نامردوں سے بھرا پڑا ہے
“بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی”

Categories
Social

A Saint In A Borrowed Mausoleum

Inside the tomb of Bahauddin Zakariya where the Sheikh rests beneath an elevated sarcophagus under a carved wooden canopy, towards his feet is an empty grave marked with tiles. For some time his grandson Rukn ud Din Abul Fateh lay buried here. A wooden ‘headstone’ tells us that Bahauddin in a dream hinted King of Delhi to remove the elevated saint’s body from his feet for he deserved a higher rank.

On the matter what happened next after Rukn ud Din’s body excavated this inscription from Faqir Dost Muhammad goes quiet. It’s Rukn ud Din’s disciple whom we know as Makhdum Jahaniyan Jahangasht of Uch Sharif who tells us that Sultan Muhammad built a shrine within an arrow’s reach from Bahauddin Zakariya’s tomb. He then pulled out Rukn ud Din’s body from his grandfather’s tomb and buried it there.

If my readers are at Qila Kuhna (Old Fort) of Multan and after paying their respect at Bahauddin Zakariya’s tomb, take a walk, within an arrow’s reach they would reach this magnificent octagonal structure with an imposing height and a majestic dome next to an ornate mosque. This beautiful tomb is termed as “tour de force and the finest achievement of the Multan builders”, and if my readers are wondering why I will urge them to take a look at this amazingly executed shot from currently airing season of Khuda Aur Muhabbat.

This enormous tomb built on octagonal plan with 90 ft wide diameter, rises well above a hundred feet to a magnificent 50 ft wide dome. Built on a terrace in Old Fort it enjoys a commanding position on surroundings where now city has encroached upon the erstwhile countryside. Timber fused into brick construction adds both strength and a fascinating texture to the outer façade. The cut and molded brick work augmented with terracotta plugs is a touch of perfection. The entire arrangement of shades of azure, blue and white is a sight to behold.

Its thick walls & angular clerestory windows make the interior a pleasant escape from scorching heat & a soothing abode for our saint from the house of Bahauddin whose body was moved here from his grandfather’s feet in the neighboring tomb. Is it actually Ruknuddin who rests here? In an interesting twist it’s again Makhdum Jahaniyan who tells us the body of our Saint Rukn ud Din was returned to Bahauddin’s tomb. He quotes Makhdum Jalal ud Din Surkh Posh Bukhari a saint of prominence from Uch who once intended to make a pilgrimage to Rukn ud Din at Multan.

Surkh Posh Bukhari made public his intention to visit Rukn ud Din at Bahauddin Zakariya’s tomb for he is not in the tomb built by Sultan Muhammd bin Tughlaq ‘Don’t go there for Sheikh Rukn ud Din is not in his tomb’. So apparently our tomb is now without its patron saint! A popular legend attributes the construction of this tomb to Ghiasuddin Tughlaq, governor of Multan who then became the Sultan and upon his death was buried in Delhi. The tomb which was then empty is said to have been gifted by Muhammad bin Tughlaq to Rukn ud Din’s descendants.

This legend is contested for the reason that if there was a tomb of such magnificence in Multan, contemporary sources would have mentioned it, which they didn’t
Well then did they mention our Saint Rukn ud Din Abul Fateh a.k.a Shah Rukn e Alam? The answer is yes, they did. Our introduction to Rukn ud Din comes to us from our greatest traveler from medieval Muslim times Abu Abdullah Muhammad a.k.a Ibn e Battuta who met our sheikh at a khanqah. Ibn e Battuta also tells us after his death there was dispute for a successor among descendants of Ruknuddin.

Sheikh Rukn ud Din had nominated his grandson Hud who was contested by one of his uncles in favour of Rukn ud Din’s nephew. The matter was settled in the Delhi Court by Sultan Muhammad bin Tughlaq in favor of Hud. What happened to Hud thereafter is a different story. Tabqaat e Akbari while praising the abundance of prominent religious teachers in the days of Sultan Alauddin Khilji to an extent never seen before, calls our saint ‘His Holiness, the Pole Star of saints, Shaikh Ruknuddin s/o Sadruddin s/o Bahauddin, may God sanctify their spirits.

Tabqaat also mentions the mediating role ‘Shaikh Ruknuddin’ played while the army of Alauddin Khilji under Ulugh Khan came and besieged Multan. “The sultan’s sons, in great distress then came to Ulugh Khan, after obtaining assurance of safety through Shaikh Ruknuddin”. Tareekh e Mubarak Shahi tells of Sultan Muhammad bin Tughlaq’s attack onto Multan when Bahram Aynah broke out into rebellion. Having killed Bahram “The Sultan made up his mind to set the blood of the inhabitants of Multan flowing like rivers”.

Sheikh ul Islam Sheikh Rukn-ul-Huk-wa-Shra-wa-ud-Din made an intercession on behalf of the people of Multan. The Sultan accepted the intercession of the holy Sheikh, and granted clemency to the Multanis who had sided with Bahram”. Rukn-ul-Huk-wa-Shra-ud-Din is our Saint Ruknudddin. And Sultan Muhmmad bin Tughlaq is the same Sultan Muhammad who as per the narrative of Makhdum Jahaniyan Jahangasht (covered earlier in this thread) had constructed the tomb of Rukn ud Din and assigned some villages as endowment for the operational expenditure of the Khanqah.

By @meemainseen

Categories
Social

Story of Jinn Experience in Islamabad House

I am going to start this thread by prefacing it with I am not the sort of person who would typically believe in djinns, neither is my family. Sure our religion insists on it so we are more welcoming of the idea but for us it was our experiences that gave us little choice.

I still can’t say If what we experienced was objectively real, or if there’s a logical explanation for it so you don’t have to believe what I say – we struggled a lot with it ourselves, still do. We’ve just filed it under the tab – knowledge is not absolute. We’ll never know. When I was 6 or 9 we moved to Islamabad to a house that had been empty for 20 years. Something was off about that house & over the course of 16 years we spent there we got to find out what. Can’t recall all incidents in chrono order so I’m going to keep writing until I can’t One of the first incidents was when we moved we had employed a new cook – came perfectly fine but in a month he lost a lot of weight, went a little nuts – wouldn’t eat. He said there were djinns in this house and they were driving him insane – he said they would laugh at him.

His hands would always be swollen because they would make him sing and clap for them all night. If he did sleep they’d drag him out into the green belt at the end of the street. He ran away at the end of the month and we never heard from again. Some mornings my mother – still in bed after waking up would hear footsteps of a child running to & from the foot of her bed. She often checked but there was never anyone there even though she could clearly hear and see someone fidgeting about at her feet. It aggravated quick. Someone started to lock my elder sister in the bathroom from the outside. Wasn’t one of us – often happened when the rest of us were downstairs or out. She also used to have a bunch of photo frames on a chest in her room which she would find all turned down. One summer my khala’s family lived with us while their house got finished. I was in my parents room on a mattress next to my cousin. I woke up in the middle of the night & saw someone lying between us. I still remember what it looked like vividly. Don’t think I’ll ever forget.

It was male. It had eyelids as big as my hands. A face that had been stretched and pulled from chin and forehead. Imagine enlarging features to disturbing proportions. It was sleeping. I don’t know how I got to my parent’s bed. I woke my mother up. I couldn’t talk at all. My mother told me I was pale as a ghost and wet from all the sweat. I had a very bad fever the morning. I wasn’t scared by it – it was just – you guessed it unbelievable. I knew I hadn’t dreamt it. Absolutely not. There was an ominous mango tree outside our kitchen. It was black, thin, never gave fruit – it’s leaves & branches blocked the upstairs living room window. One of my cousins used to visit from LHR and her son would just leave to go to that window and talk to someone in the tree. Initially it must’ve been crossed off as a usual child’s imagination but it started happening frequently to the point it started worrying my cousin so she asked him. And he insisted there was an old man with the reddest hair and beard who sat in that tree and liked to talk.

My eldest cousin who passed away a few years ago was in his early 40s back then. He would never go to that side of the house of the mango tree when he visited & he visited a lot. Don’t think he ever told us why but he was very uncharacteristically scared of that side and boundary. Our grandparents lived with us so there were people coming and going – visiting all the time. One morning my grandmother was lying down reading her Urdu digest when my father came in and lied down next to her on the bed like he used to after work. She thought nothing of it. Eventually my mother came in and my grandmother asked her where my dad went and my mother told her that nobody was home except them. My dad was in miles and miles away in Hattar. These doppelganger incidents were a very regular occurrence at our house. It happened to too many people too often. We don’t generally even go there when talking about this as we always crossed it as someone’s mind taking a shit or something in the water. Who knows. Often cousins would hear my mother calling them when she wouldn’t.

Once a distant relative was over and she saw two bald kids from behind she didn’t recognize. None of us were bald – no one was bald. She tried calling for them from the drawing room and chasing after two bald kids in the gallery but they quickly ran into a room and disappeared. A phuppo of mine once had a child follow her around the house. Lost – staring at her without saying a word. She didn’t react because she said she could see it wasn’t human. She was scared shitless couldn’t say a word let alone scream so she just moved about until it left her side. Our family & cousins didn’t like the staircase in that house. It was right in the middle so you crossed it many times. They tried their best not to come up because on numerous occasions they’d caught glimpses of someone standing on the big step or peeking from the railing above. After my grandfather passed I moved into his office which had a door that lead out into the side with the mango tree. One night I turned off the light and lay down. Fully awake I heard 2 voices whispering very clearly to each other from just feet away – right outside the door.

The neighbors light would’ve casted a shadow on my curtains if there was someone out there. I tried to make out what they were saying but I couldn’t understand the language. By that point a lot of this shit had happened so my reaction was seriously how dare they – the nerve. But yes eventually the fear took over. I was fine but I couldn’t muster the courage to move closer to the door so I did what all good Muslim boys do – recite Surah Naas and after the third time they went quiet. Once my sister, her friend and I were on mattresses in the upstairs living room because obviously – too many guests. I hadn’t slept yet and I heard growling coming from right above the stairs. It was very loud, hostile and beastly – nothing like a dog. We didn’t even let a dog inside the house back then. It went on for a bit. The next morning we found out we all were up and heard it but nobody wanted to get out of the covers or say anything in that moment.

One of my phuppos (have many) swears on her life there was a wolf like humanoid creature in the house because she had seen it numerous times peeking through doorways. Maybe my eldest anti-mango-tree cousin mentioned he encountered it too but I can’t say for certain. Can’t recall. One of our cousins lived in our guestroom while she went to UCI. One night while she was studying late in her bed – locked room and all said that she turned her side and saw a giant standing next to her bedside. What she described was very close to what I had seen. And I retrospect I think what I saw was a child – she saw an adult. She freaked and ran to my grandparents room hyperventilating and was pretty shaken up for the next few days. Didn’t sleep in the guest room for a long, long time. One night my sister heard someone humming; melodious, echoing across the gallery. She went to my younger sister and told her to stop. My younger sister shouted that she thought it was her. Both ran through the house screaming. My elder sister was shivering she was so scared. Ouijas are BS but once my sisters & frnds were on it. They asked for a sign and the puck went nuts – they weren’t touching it. It flew from the board and hit the wall. The candles went out. +1 instance of girls screaming. Sister’s friend injured her foot while making a run for it Only other weird Ouija board incident was once on Eid our cousins, aunts & uncles joined for an impromptu Ouija session. Questions were asked that had very strange and I cannot stress this enough impossible answers. Fast forward to 10 years later. All those predictions were true.

There was a lightning storm in ISL and the electricity went. I had to go up to my parents room in the dark with no light on me. I wasn’t scared but maybe I should’ve been. On my way back I made out three bodies standing together close to the stairs railing just feet away from me. They were looking at me. Could’ve been a trick of the light or lack there of but what I felt then was crazy. I knew it in my soul that they were smiling at me so I looked away and pretended I saw nothing and kept walking. Another cook of ours had recently gotten married. We had a swinging kitchen door with a glass pane that lead to the dinning room. He was cooking and he saw his wife burnt across the glass. He got so disturbed that he threatened to quit but what could we do. He eventually did quit. I’m not nuts – I think. One normal evening. Clear skies, light outside. My mother and I were sitting in the drawing room. There was a window overlooking the garden. For a split second I saw a massive ball of electrical white light form a feet above the grass and explode.

I went did you see that. My mother didn’t. But she saw the whole room light up for a second. I googled later being the loser that I am and the closest phenomena I could find was something called St. Elmo’s Fire which seafarers would encounter on the open water. So fuck me right? One of our cousins had a very eccentric friend who came and lived with us for a weekend. She had some strange habits – very funny though. She would talk to herself a lot amongst other things. This is so weird I can’t believe I am relaying this anecdote:

She said the moon in this house was different and she went outside and talked to it for an hour in the garden at night – on her own. I know. I know. Pretend like you’re not reading this thread. Midway through our stay in that house we had two unrelated religious scholars visit our house. One of my dad’s friend even brought Maulana Maududi’s son from Lahore. No link between them – Both said the same thing: There was a family of 5 who lived in that house. (We were 5 – is this the movie The Others? Are we the Djinns). They said they did not want to hurt us. They had grown used to us so we shouldn’t worry and think of them as almost – but not necessarily offering protection. Whatever that means. By the last years of our stay in that house they had grown rather confident and we brave. Shared experiences is what really cemented that there was definitely something there. After my grandmother too passed away we converted her bedroom into a living room because we missed her. We spent most of our time downstairs, in that room, together. We would all hear someone running above us on the upper floor – banging doors. We would mute the tele. Do a double check and then I would run up the stairs to see if anyone was there – obviously nothing.

Another tree outside my grans room would rustle and move like someone climbing over it. The curtains open. Tree right there in front of our eyes. No human in sight. It was too obvious at that point. You could literally track where they were moving – especially above in the house. The funny thing is they really felt like they couldn’t be arsed at that point. If you were upstairs you could often hear pebbles and debris being rolled around by someone’s feet on the roof. You heard friction. We were so desensitized to it that it became background noise. The funny thing is they really felt like they couldn’t be arsed at that point. If you were upstairs you could often hear pebbles and debris being rolled around by someone’s feet on the roof. You heard friction. We were so desensitized to it that it became background noise. After we moved our landlord lady’s sons called my dad v seriously, worried asking if we had had any strange experiences in the house cause they weren’t having a good time. My dad was like I told your mum numerous times but they’re harmless. The son said I think they don’t like us.

I talk about this house lovingly and calm-ly because well I grew up there but know that most people were shit scared of that house. Not in a visual sense of the way that oh this is an old house, it has some dark corners – it was a fairly average looking house – but more like. You genuinely felt like you were being watched or followed in it. You felt like you were the one intruding on someone else’s territory. There are more anecdotes spread across extended family and friends of that house. But this is where I shall end this thread. Sweet dreams.

By Kayhan Suleman (@7kayhan) on Twitter

Categories
Social

Updated List of Cancer Hospitals in Pakistan

Here is updated list of cancer hospitals in Pakistan. Most of the people think that the only hospital is Shaukat Khanum, but that’s not true. Here is complete list city by city:

  1. INMOL (Institute of Nuclear Medicine and Oncology) Lahore
  2. CENUM (Centre for Nuclear Medicine) Lahore
  3. GINUM Gujranwala
  4. SKMH Lahore
  5. BINO Bahawlapur
  6. MINAR Multan
  7. PINUM Faisalabad
  8. NCCI Karachi
  9. Ziauddin Cancer Hospital Karachi
  10. The Cancer Foundation Hospital KHI
  11. Bait Ul Sukon Cancer Hospital KHI
  12. Agha Khan KHI
  13. AEMC (Atomic Energy Medical Centre) KHI
  14. KIRAN Khi
  15. LINAR Larkana
  16. NIMRA Jamshoro
  17. NORIN Nawabshah
  18. Northwest Hopsital Peshawar
  19. BINOR Bannu
  20. INOR AMC Abbotabad
  21. IRNUM Peshawar
  22. SINOR Saidu Sharif Sawat
  23. D.I.Khan Institute of Nuclear Medicine Dera Ismail Khan
  24. NORI (PIMS) Islamabad
  25. Shifa International Isb
  26. Quiad E Azam International Hospital Isb
  27. Gilgit Institute of Nuclear Medicine and Oncology Gilgit
  28. CENAR Quetta.

I hope that it helps you. Thanks.

Courtesy: @khush_rhooo

Categories
Social

Pakistani Girl Fraud For Money on Twitter

یہ کہانی ہے اک ایسی دوشیزہ کی جو شادی کے ٹھیک 27 دن بعد وفات پاگئیں اور کچھ دن بعد کرشماتی طور پر لڑکا بن کر زندہ ہوئیں اور نیپال سے واپسی کی۔ جب یہ کیس

ہمارے پاس آیا تو ہماری عقل پریشان ہوگئی پر معجزے تو ہوتے ہیں اس لیئے ہم نے وقت ضائع کیئے بغیر اپنے ایکسپرٹ ریسیرچرز کی ٹیم کو اس کیس کی انوسٹیگیشن پر لگا دیا۔
جیسا کے آپکو پتہ ہے کے ہمارے پاس جدید سائنسی آلات سے لیکر فرعون کے دور تک کے آلات موجود ہیں اس لیئے ہم نے چند گھنٹوں میں

ہی اس معجزے کی جڑ پکڑ لی۔
آج ہم اپنے ناظرین کو اس معجزے کی کہانی سنائیں گے بھی اور اس نیک پروین شخصیت سے متعارف بھی کروائیں گے۔

کہانی کچھ یوں ہے کے ٹوئیٹر پر نوشین نامی اک خاتون کا اک بڑا اکاونٹ تھا سن 2018 کے آخری مہینوں میں انہوں نے ٹوئیٹر واسیوں کو بتایا کے ان کی والدہ

کی طبیعت کافی ناساز ہے اور اس سلسلے میں انکو مدد درکار ہے۔ اب جیسا کے آپ سب جانتے ہی ہیں کے ہمارے ہاں چند دوست خدا خوفی سے اور چند ٹھرک کے چکر میں لڑکی کی مدد کو بھاگتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ اس کیس میں بھی ہوا۔

اب مسئلہ یہ تھا کے نوشین عرف اک باپردہ اور حہاء دار لڑکی تھی جو نا کسی

کو اپنا نمبر دے سکتی تھی نا ہی ٹوئیٹر ڈی ایم کے علاوہ کسی سے بات کر سکتی تھی ہاں اگر آپنے امداد کرنی تھی تو اس کے بھائی ارسلان اصغر کا اکاونٹ اور فون نمبر حاضر تھا۔ آپ چاہے ارسلان صاحب سے 3 3 گھنٹے باتیں کریں وہ آپکی مرضی تھی۔

خیر قصہ مختصر کئی دوستوں نے امداد کی اور پھر اکثر

کو بتایا گیا کے والدہ اب بہتر ہیں اور انہوں نے نوشی کا رشتہ طے کردیا ہے اور جلد ہی نوشین بیاہ کے اپنے گھر کی ہوجائے گی اس لیئے کوئی بھی آس واس نا رکھے کسی قسم کی اور یہ بات تاریخ کا حصہ بھی بنی کے نوشین کی شادی ہوئی پر قدرت کے کاموں کے آگے انسان بے بس تھا ہے اور رہے گا قدرت

کی ستم ظریفی دیکھیں کے نوشین نے سب کو بتایا کے اس کو شادی کے بعد ٹوئیٹر استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوگی پھر آگے جو ہوا وہ پڑھ کر آپکا کلیجہ منہ کو آجائے گا۔

نوشین شادی کے ٹھیک 27 دن بعد قضائے الہی سے وفات پا گئی اور اکاونٹ بالکل سن سان ہوگیا۔
تھوڑے عرصہ بعدوہ اکاونٹ

پھر سے ایکٹیو ہوا مگر اس بار نوشین کا نام چوہدری شانی تھا جو کے اک دانشور تھا

Courtesy: @khush_rhooo at Twitter

Categories
Social

باسی روٹیوں والا ملیدہ

انٹر کے زمانے کی بات ہے، کالج میں سب دوست بیٹھے مختلف کھانوں کا زکر کر رہے تھے نکلتے نکلتے بات پہنچی“چُوری” جسے ہم ملیدہ کہتے ہیں تک
چھ دوستوں کا گروپ، تین تو اس نام سے ہی نابلد، دو اچھے سے جانتی تھیں اور باقی بچے ہم تو ہم نے بڑھ چڑھ کر چوری یا ملیدے سے اپنے عشق کا اظہار کیا

اور بتایا کہ ہماری اماں اکثر بناتی ہیں اور ہمیں بے حد پسند ہے۔ دونوں دوستوں نے ہمارے جوش و خروش کو دیکھتے پوچھا کہ اس کی ترکیب کیا ہے تم لوگ کیسے بناتے ہو؟ ہم نے کہا کبھی روٹی بچ جاتی ہے تو ہماری اماں اسے فریج میں رکھ دیتی ہیں

پھر ان روٹیوں کو فوڈ پروسیسر میں اچھے سے باریک کر لیتی ہیں پھر بہت سارا دیسی گھی گرم کر کے الائچی ڈالی۔ روٹی کو اچھے سے بھوننا ۔۔۔ شکر۔۔ میوہ ۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ پوری ترکیب کے دوران ہماری منحوس دوستیں سنجیدگی سے ہماری شکل دیکھتی رہیں

اور ترکیب ختم ہوتے ہیں انہوں نے ایک بلند قہقہہ لگایا اور کہا کہ اس طرح ملیدہ بنتا ہے تمہارے گھر!! جب تم باسی روٹیوں کا ملیدہ اس قدر شوق سے کھاتی ہو عظمی تو اصلی ملیدہ کس قدر شوق سے کھاؤ گی۔
ہمارے لیے تو یہ ہی بہت بڑا انکشاف تھا کہ ہیں!! ملیدہ تازی روٹیوں سے بھی بنتا ہے۔

دوستوں کا ہنسی مذاق نظر انداز کر کے چھٹی کا انتظار کرنے لگے کہ گھر جا کر اپنی اماں کی آنکھوں سے غفلت کا پردہ اٹھائیں گے۔
گھر پہنچے اور اماں کو بتایا تو انہوں نے سر پیٹ لیا۔ کہنے لگیں تم نے تہیہ کر رکھا ہے نا سب جگہ ماں کو بدنام کرنے کا!! کیا سوچتی ہوں گی تمہاری دوستیں

اصلی ملیدہ ایسے ہی بنتا ہے بہت اہتمام سے دیسی گھی ڈال کر آٹا گندھتا ہے پھر اسکی روٹی پکتی ہے اور اس کی چوری بنتی ہے۔ ہم نے کہا ہم نے تو کبھی نہیں کھایا وہ والا ملیدہ۔۔ جواب میں اماں نے اپنا مخصوص جواب دیا کہ “ ہاں جی تم نے تو کچھ نہیں کھایا ایسے ہی تو اتنی بڑی ہو گئیں۔

روٹی بچ جاتی ہے بیٹا اور مجھے پھینکنا رزق کی بے حرمتی پسند نہیں اس لیے یہ ترکیب لڑا لی، پہلے بناتے تھے دوسرا بھی۔”
اس کے بعد اماں نے ہمیں اصلی چوری/ملیدہ بنا کر کھلایا اور ہم نے دوستوں کو جا کر بتایا کہ اصلی ملیدہ بھی کھا لیا ہے

مگر ہمیں اپنا باسی روٹیوں والا ملیدہ ابھی بھی بہت پسند ہے

Categories
Politics

بابائے سیاست انورعزیز چوہدری کی کہانی

کبھی کبھی میں آپ کی بصارتوں کی نظر پرانی مگر سچی کہانیاں پیش کرتا ہوں۔
جنرل ایوب ملک کے صدر تھے اور نواب آف کالاباغ گورنر پنجاب تھے۔ تب جنرل ایوب کو ملک میں ایک جمہوری حکومت کی فکر ہوئی تو ملک میں غیرجماعتی الیکشن منعقد کروائے گئے۔ جن میں ووٹ کا حق صرف BD ممبرز کو تھا۔

بابائے سیاست انورعزیز چوہدری اس وقت جوان تھے اور امریکہ سے ایل ایل ایم کر کے آئے تھے امریکہ میں بھی کچھ بین الاقوامی فورم پر اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑے تھے۔
ایوب سرکار کےاس الیکشن میں انورعزیز چوہدری صاحب نے ایم پی اے کا الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا اور علاقہ میں چونکہ قبل از پاکستان

عبدالرحیم چوہدری خاندان کی اجارہ داری تھی ان کو یہ نوجوان انورعزیز چوہدری بہت چھبتا تھا جو اکثر ان کی شہنشاہیت میں روڑے اٹکاتا تھا۔ اور اب اس نے عبدالرحیم چوہدری کے سالے عبدالراوف کے خلاف ایم پی اے کے کاغذات جمع کروا دیئے۔
عبدالرحیم چوہدری نے یہ بات اوپر اپنے آقا جنرل ایوب تک

پہنچائی اور یوں انورعزیزچوہدری کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ کاغذات نامزدگی داخل کرواتے ہی ان کے خلاف بہت سے مقدمات رجسٹرڈ ہو گئے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے ووٹر صرف بی ڈی ممبرز تھے۔ ان ووٹرز کو دھمکانے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
انورعزیز چوہدری صاحب کے آگے

جتنی رکاوٹیں ڈالی گئیں ان کے جنون میں اتنا ہی اضافہ ہوتا گیا۔ علاقہ کے لوگ جو چوہدری عبدالرحیم گروپ کے مظالم سے تنگ تھے ان کو انورعزیز چوہدری کی صورت میں “امیدسحر” نظر آئی یہ لوگ رات کے اندھیرے میں چھپ چھپا کر انورعزیز چوہدری سے ملتے اور اپنی حمایت کا یقین دلاتے جب اس بات کی

چویدری عبدالرحیم کو بھی مل رہی تھی۔ اس نے پورا زور لگوا کر انورعزیز چوہدری کو گرفتار کروانے کا بندوبست کر لیا۔ تب پولیس کے پاس ڈالے نہ ہوتے تھانیدار تانگے پر جبکہ سپاہی گھوڑے پر سوار ہو کر گرفتاریوں کے لئے نکلتے تھے۔ جب ایسا سکواڈ انورعزیز چوہدری کو گرفتار کرنے ان کی طرف نکلا

انورعزیز چوہدری نے کہا اس میں کیا ہے میں گرفتاری دے دیتا ہوں اور ان جھوٹے کیسوں کو عدالت میں جھوٹا ثابت کروں گا۔ تب وہاں ان کے ایک چچا نے کہا بیٹا یہ جو لوگ آپ کو ووٹ دینا چاہتے ہیں وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ آپ ان کو ایسی گرفتاریوں اور مظالم سے نجات دلائیں گے اگر آپ ہی گرفتار ہو

گئے تو وہ مایوس ہو جائیں گے اور ان کی امید ٹوٹ جائے گی۔ انورعزیز چوہدری کو یہ بات سمجھنے میں دیر نہ لگی پولیس کا تانگہ اور گھوڑے تب ان کے گھر کے قریب پہنچ چکے تھے۔ انورعزیزچوہدری نے حویلی میں بندھے گھوڑے کو کھولا کاٹھی وغیرہ ڈالنے کا تکلف بھی نہ کیا اور گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ

کر گھوڑے کو گاوں سے نکالا اور اپنے قریبی ریلوے اسٹیشن کی بجائے تیسرے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے “تب شکرگڑھ کا ضلع سیالکوٹ تھا اور شکرگڑھ کوئی پکی سڑک نہ آتی تھی صرف ریلوے ہی سفر کا واحد ذریعہ آمدورفت تھا” اس ریلوے اسٹیشن کے قریب انورعزیز چوہدری ایک جگہ چھپ گئے۔ اور گھوڑے کو آزاد

چھوڑ دیا جس نے لامحالہ گھر پہنچ جانا تھا۔ رات یونہی گذری صبح اذانوں کے وقت پہلی ٹرین آئی تو جب ٹرین آہستہ ہوئی تو انورعزیز چوہدری چلتی ہوئی ٹرین کے انجن میں چڑھ گئے اور ڈرائیور کو مختصر الفاظ میں اپنی کتھا سنائی اور رازداری اور مدد کا کہا ڈرائیور نے کہا فکر ہی نہ کریں۔

راستے میں ہر ریلوے سٹیشن پر پولیس پوری ٹرین کی تلاشی لیتی رہی انجن کی طرف پولیس آتی تو ڈرائیور لاپرواہی سے ان کو دیکھتا اور انجن کی طرف متوجہ ہی نہ ہونے دیتا۔
جب سیالکوٹ ریلوے اسٹیشن کے قریب ٹرین پہنچی تو ڈرائیور نے ٹرین پہلے ہی معمول سے زیادہ آہستہ کر دی یوں انورعزیز چوہدری

چلتی ٹرین سے اتر کر سیالکوٹ میں اہنے ایک دوست وکیل کے گھر پہنچ گئے۔ اور ان کو کہا سب سے پہلے میرے لئے لباس کا بندوبست کرو پھر تمام دوست وکیلوں کو اکٹھا کرو میں نے اپنی عبوری ضمانت کروانی ہے۔
جب وکلاء اکٹھے ہو گئے تو ان کے ساتھ انورعزیز چوہدری سیشن جج سیالکوٹ کے پاس پہنچے

سیشن جج نے جب انورعزیزچوہدری کو سنا تو عجیب فیصلہ دیا۔ وہ فیصلہ کچھ یوں تھا۔
الیکشن کے دو دن بعد تک انورعزیز چوہدری کو آج سے پہلے یا آج کے بعد کے کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔
ضمانت کا پروانہ لینے کے بعد انورعزیز چوہدری لاہور پہنچے اور اپنے ایک دوست کے پاس گئے

دوست نے جب بات سنی تو چوہدری صاحب کو اپنی کار میں لے کر گاڑیوں کے شوروم پر آئے اور ایک جیپ پسند کی اس جیپ کی قیمت 10 ہزار تین سو روپے تھی جیپ کی رقم ادا کرنے کے بعد اس دوست نے جیپ کی چابی انورعزیزچوہدری کو تھماتے ہوئے کہا اگر الیکشن جیت کر آئے تو مجھے ملنا اگر الیکشن ہار گئے تو

مجھے زندگی میں کبھی نہ ملنا۔ اگلے دن انورعزیز چوہدری جیپ پر شکرگڑھ پہنچے اور وہ کمپین جو پہلے گھوڑے اور تانگے پر شروع تھی جیپ پر شروع کی دوسرے روز انورعزیزچوہدری تھانے کے قریب سےگذر رہے تھے تو تھانیدار نے انورعزیز چوہدری کو گھورا اور اپنی مونچھوں کو تاو دیا۔
اب انورعزیز چوہدری

کے پاس الیکشن کے دو دن بعد تک کا ضمانت نامہ تھا۔ ان کے پاس کوئی اوزار تو نہ تھا۔ انہوں نے گاڑی سے بڑا سا پیچ کس نکالا اور لہراتے ہوئے تھانیدار کی طرف لپکے اور کہا کہ آج تمھاری بدمعاشی اور تمھیں ختم کر دینا ہے۔ ساڑھے چھ فٹ کے انورعزیز چوہدری کو اپنی طرف آتا دیکھ کر تھانیدار

ڈر گیا. یاد رہے کہ اس سے بہت پہلے انورعزیز چوہدری انگلینڈ اولمپک میں پاکستان کے لئے پیراکی میں تمغہ بھی جیت چکے تھے اور قومی لیول کے باکسر بھی تھے۔
تھانیدار آگے آگے بھاگنا شروع ہو گیا اور انورعزیز چوہدری اس کے پیچھے ہو لئے اور تھانیدار کو سپاہیوں کی ایک بارک میں جا پکڑا

اور مارا تو نہیں البتہ اتنا کہا اپنی ڈیوٹی کرو جتنی قانون اجازت دیتا ہے اگر تم نے بدمعاشی کی تو پھر میں تمھیں نہ چھوڑوں گا۔
اس کے بعد تھانیدار کی سرعام بدمعاشی تو بند ہو گئی مگر سازش کا سلسلہ نہ رکا۔
انتظامیہ کے ساتھ مل کر حلقہ کے تمام بی ڈی ممبران کو عبدالرحیم کے سامنے بلایا

اور ان سے حلف لینے لگے۔ جس سپاہی کو قرآن شریف پکڑ کر ممبران کے سر پر رکھنے کا کہا ہوا تھا اس سپاہی نے قرآن کے غلاف میں ایک کتاب ڈال رکھی تھی۔ وہ ہر ممبر کے کان میں کہہ رہا تھا فکر نہ کرو ان کے سامنے ہاں کرتے جاو مرضی اپنی کرنا تمھارے سر پر قرآن نہیں یہ انگریزی کی ایک کتاب ہے جو

میں نے لپٹ رکھی ہے۔
بالآخر مرحلہ پولنگ کا آیا تو چند ممبران کے علاوہ سب ممبران عبدالرحیم کے کیمپ میں تھے۔ اور انورعزیز چوہدری متفکر تھے کہ میں نے تو ان کے لئے جنگ لڑی مگر لگتا ہے کہ خود ہی غلام رہنا چاہتے ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہوا دوپہر تک صورتحال یہ تھی کہ جو بھی ممبر اندر ووٹ

ڈال کر آجاتا وہ آکر انورعزیز چوہدری کے گلے ملتا اور کہتا “منڈیا میں اپنا کم کر آیاں وا اگے تیرا کم اے”
یوِں صبح جو لوگ عبدالرحیم کے کیمپ میں تھے سب کے سب ووٹ دے کر انورعزیزچوہدری کے کیمپ میں کھڑے تھے۔
جب شام کو گنتی شروع ہوئی تو ہر ووٹ انورعزیز چوہدری کا نکل رہا تھا صرف

اکا دکا ووٹ عبدالرحیم کے رشتہ داروں کا اس کے سالے عبدالراوف کے حق میں نکلتا۔
رزلٹ مکمل ہوا اور انورعزیز چوہدری پنجاب بھر میں پہلے آزاد حکومت مخالف امیدوار کامیاب ہوئے۔
یوں تحصیل شکرگڑھ جمہوریت کی علمبردار بن گئی۔

اگلا مرحلہ بھی خاصا مشکل تھا جو انورعزیزچوہدری نے طے کیا یہاں تک کہ گورنر پنجاب کالا باغ نے جب انورعزیزچوہدری کو گورنرہاوس بلایا تو سب کو یقین تھا کہ آج انورعزیزچوہدری کی زندگی کا آخری دن ہے مگر یہ دلیر جوان وہاں بھی دلیری کی ایک داستان رقم کر کے زندہ آیا

Categories
Politics

استاد دامن

لاہور کے عوامی شاعروں کا زکر ہو اور استاد دامن کا زکر نہ ہو ایسا ممکن نہیں۔ وہ ان سب کے استاد تھے۔

لیکن پہلے سمجھیئے عوامی شاعر ہوتا کون ہے۔وہ چاہے کسی بھی زبان سے متعلق ہو، کسی بھی علاقے سے تعلق ہو وہ عام عوام کا شاعر ہوتا ہے خواص کا نہیں ۔

زبان و ادب کا شاعر نہیں ۔ پھر اسکا دکھ غمِ جاناں نہیں ہوتا غمِ روزگار کے مارے لوگ ہوتے ہیں، سڑکوں پر چلتے پھرتے ریٹرھیاں لگاتے، ملوں میں مزدوریاں کرتے عوام ہوتے ہیں۔ وہ خود بھی اُنہیں میں سے ایک ہوتا ہے اُنہیں کی زبان میں بات کرتا ہے بس قدرتی طور پر شاعر ہوتا ہے

نہ کہ علم کے بِنا پر شعر کہتا ہے اس لئے بہت سے عوامی شاعر واجبی تعلیم یافتہ یا سرے سے ہی غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں

لاہور میں پیدا ہوئے اور خاندانی طور پر درزی پیشے سے منسلک تھے۔ شعر گوئی کی ابتدا بڑے بھائی کی وفات پرمرثیوں سے کی لیکن باقاعدہ طور پر شاعری کا آغاز میٹرک کے بعد کیا

سیاسی جلسوں میں بھی نظمیں پڑھتے۔ وہ سید عطا اللہ شاہ بخاری ،میاں افتخار الدین اور مزدوروں کے جلسوں کی رونق ہوتے تھے۔لاہور کے ایک جلسے میں جس کی صدارت جواہر لال نہرو کر رہے تھے، دامن نے نظم پڑھی جو نہرو نے بہت پسند کی اور 100 روپے انعام دیا۔

قیامِ پاکستان کے فسادات کے دوران اپنے دکان اور خاندان دونوں گنوا دیئے تو اندرون ٹیکسلائی گیٹ میں ایک حجرے میں مقیم ہو گئے۔ قیاس ہے کہ ہیرا منڈی کے آغاز میں چیت رام روڑ پر، ایک مسجدکے زیرِ سایہ جس کوٹھڑی میں استاد دامن مقیم تھے گئے زمانوں میں انکے مرشد شاہ حسین بھی رہتے تھے۔

اس کا تاریخی طور پر کوئی حوالہ موجود نہیں۔ محض ایک داستان طرازی لگتی ہے۔

کھانا کمال بناتے تھے۔ بقول یوسف کامران جیسا گوشت وہ بُھونتے تھے، جیسے کوفتے وہ بناتے تھے وہ اپنی مثال آپ ہوتے تھے کہ انہیں وسکی کا تڑکا لگایا گیا ہوتا تھا۔

استاد نے دوبارہ شادی نہیں کی.

اس لئے حجرے میں استاد دامن کے علاوہ صرف کتابیں ہوا کرتی تھیں۔ واجبی سی تعلیم کے باوجود کثیرالمطالعہ تھے۔ عربی، انگریزی،روسی، سنسکرت اردو پر “عبور” رکھتے تھے مگر اظہارِ خیال صرف پنجابی میں کیا۔ بقول فیض احمد فیض” میں پنجابی میں صرف اس لئے شاعری نہیں کرتا کہ پنجابی میں

شاہ حسین، وارث شاہ اور بلھے شاہ کے بعد استاد دامن جیسے شاعر موجود ہیں “

آزادی کے کچھہ عرصہ بعد انہوں نے ہندو پاک دلی میں منعقد مشاعرے میں یہ فی البدیہہ نظم پڑھی

آزادیاں ہتھوں مجبور یارو
ہوئے تسی وی او ‘ہوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دس دی اے
روئے تسی وی او، روئے اسیں وی آں

حاضرین بے اختیار رونے لگے۔ مشاعرے میں پنڈت جواہر لعل نہرو (وزیراعظم بھارت )بھی موجود تھے انہوں نے استاد دامن سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مستقل طور پر بھارت میں قیام فرمائیں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ اب میرا وطن پاکستان ہے میں لاہور ہی میں رہوں گا بے شک جیل ہی میں کیوں نہ رہوں

نہ جھکنے والے، نہ بکنے والے شاعر استاد دامن صدارتی انتخاب میں جنرل ایوب خان کے مقابل قائداعظم کی بہن مادرملت محترمہ فاطمہ جناح مادرملت کے ساتھ تھے۔
ایک سازش کے تحت جب حبیب جالب کو گورنر نواب کالا باغ نے اقدام قتل کے جھوٹے مقدمے کے تحت جیل میں ڈال دیا۔ تو موچی گیٹ لاہور کے

لاکھوں کے جلسے میں استاد دامن کہہ رہے تھے
’’ایہہ کی کری جاندا ایں ‘
کدی شملے جاندا ایں کدی مری جاندا ایں‘‘
اسی جرم کی پاداشت میں جیل میں ڈال دیئے گے۔

جب فیض صاحب کا انتقال ہوا تو حبیب جالب ہسپتال میں اپریشن کے ہاتھوں شرکت نہ کر سکے۔ استاد دامن بھی ہسپتال میں بیمار تھے

ہر احتیاط کو بالائے تاک رکھ کر جنازے پر گئے اور شاید روحانی طور پر اپنے دوست کے ساتھ اسی دن بھی رخصت ہو گئے جسمانی طور پر محض ہفتہ دس روز زندہ رہے اور اس دنیا سے منہ موڑ لیا۔
اور مرشد شاہ حسین کے مزار کے ساتھ دفنائے گئے

وفات کے بعد انکے حجرے کو استاد دامن اکیڈمی بنا دیا گیا

اور چاہنے والوں نے مرنے کے بعد کلام ” دامن کے موتی ” کے نام سے شائع کروایا۔

By Ibn-e-Saeed.

Exit mobile version